بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تکافل کی شرعی حیثیت


سوال

 جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کے حالات آئے دن گرتے جا رہے ہیں،  اس مہنگائی کے دور میں ہر بندہ یہ چاہتا ہے کہ جہاں تک ہو سکے کچھ نہ کچھ بچت ہو جائے جو کہ آئے دن مشکل ہو پا رہی ہے اور جتنی رقم انسان کے پاس بچت کی صورت میں پڑی ہو وہ آئے دن کم ہو رہی ہے، اسی سلسے میں میری ملاقات اسٹیٹ لائف کے نمائندے سے ہوئی، جس نے مجھے بتایا کہ اسٹیٹ لائف کا ونڈو تکافل اور گولڈن اینڈومنٹ تکافل/بیمہ پالیسی پروگرام کو علماءکرام نے جائز قرار دیا ہے اور یہ بھی کہا ہےکہ آپ کسی بھی دارلافتاء سے تصدیق کر سکتے ہیں،  آپ علماء کرام سے میری درخواست ہے کہ برائے کرم اس بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ  اس تکافل کی پالیسی سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی بھی قسم کی بیمہ (انشورنس) پالیسی، سود اور قمار (جوا) کا مرکب ومجموعہ ہونے کی وجہ سے ناجائز اور حرام ہے اور  مروجہ انشورنس کے متبادل کے طور پر  بعض ادارے  جو "تکافل" کے عنوان سے نظام  چلارہے ہیں ، یہ نظام بھی سود اور جوئے کے عنصرسے پاک نہیں ہے، لہذا کسی بھی قسم کی تکافل کی پالیسی لینے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ}." [المائدة: 90] 

ترجمہ:"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں ہیں، شیطانی کام ہیں، سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"(بیان القران)

مسلم شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه وقال: هم سواء."

(کتاب المساقاۃ، باب لعن آكل الربا ومؤكله، 1219/3، ط: دارإحیاءالتراث العربي)

ترجمہ:" حضرت جابر  رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، کِھلانے والے ، سودی معاملہ لکھنے والے اور سودی معاملے کے گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ  یہ سب (گناہ میں) برابر (کے شریک) ہیں۔"

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(کتاب الکراھیة، فصل في البیع، 6/403، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144405101514

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں