1۔صورتِ مسئولہ میں سائل کو ملنے والا کا م آگے کسی دوسرے کو کم اجرت پر دے کر کرانےکی صورت میں جونفع ملےگاوہ لیناجائزہوگا،البتہ اگر گاہک یہ کہہ دے کہ سائل خود یہ کام کرے گا تو ایسی صورت میں سائل کے لیے آگے دوسرے کو دینا جائز نہیں ہوگا۔
2۔سائل سے جب کوئی پارٹی کسی سامان کی ڈیمانڈ کرتی ہے جو کہ 100 روپے کاہوتاہےاور سائل اس سامان کا انتظام کر کے آگے 150 پر دیتاہے،تو اگر سائل وہ چیز اپنے لیے سو روپے میں خریدنے کے بعد بائع بن کر 150 میں فروخت کرتاہے تو یہ جائز ہے۔ اور اگردلال یا بروکر بن کر انتظام کردیتاہے، تو سامان کا انتظام کرکے دینے کی اجرت متعین کرلے اور کام انجام دینے کے بعد وہی طے شدہ اجرت لےلے، اس سےزائد نفع نہ لے، یعنی اس صورت میں سوروپےمیں خرید کر سو روپے سے زائد لینا جائز نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"استأجر إنسانًا على خياطة ثوب بدرهم، فاستأجر الأجير من خاطه بنصف درهم، طاب له الفضل؛ لأن عمل أجيره وقع له، فكأنه عمل بنفسه."
[كتاب المضاربة، ج:6، ص:97، ط: دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: و في الدلال و السمسار يجب أجر المثل، و ما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."
(كتاب الاجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144504102294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن