بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

تجہیز و تکفین سے متعلق چند مسائل


سوال

درج ذیل مسائل میں بندہ کو وضاحت درکا ہے۔ 

1۔ میت کو کفن کن کپڑوں میں دیا جائے گا؟ یعنی  اگر مرنے والا اپنی زندگی میں کئی قسم کے کپڑے پہنتا تھا  تو کس طرح کے کپڑوں میں اسے کفن دیا جائے گا؟ کیا دوست احباب کی مجلس میں پہنے جانے والے کپڑوں میں بھی کفن دیا جاسکتا ہے؟

2۔ کفن میں کپڑوں کی تعداد کتنی ہو؟ اگر ورثاء کفن میں اضافہ کرنا چاہیں تو کیا حکم ہے؟ نیز قیمت میں اضافہ کرنے کی گنجائش ہے؟

3۔ مفید الوارثین کی مذکورہ عبارت کی توضیح کردیں! 

”اگر کوئی شخص فی سبیل اللہ میت کے لیے اپنے پاس سے کفن دینا چاہتا ہے یا قبر کی اجرت دینا چاہتا ہے تو وارثوں پر اُس کا قبول کر نالازم نہیں، خواہ میت مقروض ہو یا نہ ہو۔ قرض خواہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم دوسرے شخص کے دیے ہوئے کو قبول کیوں نہیں کرتے اور میت کا مال کفن میں خرچ کر کے ہمارا کیوں نقصان کرتے ہو ، اس لیے کہ تجہیز و تکفین کے بقدر شریعت نے میت کے لیے اس کے مال میں مرنے کے بعد بھی حق مقرر فرمادیا ہے، اس میں قرض خواہوں کی دست اندازی جائز نہیں ، البتہ اگر وارث خوشی سے منظور کر لیں تو جائز ہے۔ اسی طرح وارثوں کے لیے ضروری نہیں کہ وہ میت کو کسی عام قبرستان میں دفن کریں، بلکہ اگر چاہیں تو قبر کی زمین خرید کر اس میں دفن کر دیں۔ کوئی وارث یا قرض خواہ اس سے روک نہیں سکتا۔ ہاں، اگر وہ اپنی خوشی سے عام قبرستان میں دفن کر دیں تو جائز ہے۔“

اس عبارت کا مقصد واضح نہیں ہو پارہا، اس لیے کہ اصل حکم تو یہی ہے کہ میت کو عام قبرستانوں میں دفنایا جائے۔ جیسا کہ  فتاوی شامی میں ہے :

"ولا ‌يدفن ‌صغير ‌ولا ‌كبير في البيت الذي مات فيه فإن ذلك خاص بالأنبياء، بل ينقل إلى مقابر المسلمين اهـ ومقتضاه أنه لا يدفن في مدفن خاص كما يفعله من يبني مدرسة ونحوها، ويبني له بقربها مدفنا تأمل."

جواب

1۔  مرد کے کفن کے بارے میں مستحب یہ ہے کہ اس  کو ایسے کپڑوں میں  کفن دیا جائے جس طرح کے کپڑے وہ جمعہ و عیدین کی نماز کے لیے پہن کر جاتا تھا، اگر ایسا کپڑا مُیسر نہیں تو اس کے استعمال کے عام کپڑوں  جیسے کپڑے میں بھی کفن دیا جاسکتا ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر کسی کے پاس  مختلف قسم کے کپڑے موجود ہیں تو جمعہ و عیدین میں پہنے جانے والے کپڑوں کو ترجیح ہوگی، نہ کہ عام دوستوں وغیرہ کی مجلس میں پہنے جانے والے لباس کو، ہاں اگر عام دوستوں وغیرہ کی مجلس میں پہنے جانے والے کپڑے بھی ایسے ہوں جو جمعہ و عیدین میں پہنتاہو، تب تو کوئی حرج نہیں ہے۔

فتاو یٰ شامی میں ہے:

"ويحسن الكفن لحديث «حسنوا أكفان الموتى فإنهم يتزاورون فيما بينهم ويتفاخرون بحسن أكفانهم» ظهيرية ،  (قوله: ويحسن الكفن) بأن يكفن بكفن مثله، وهو أن ينظر إلى ثيابه في حياته للجمعة والعيدين، وفي المرأة ما تلبسه لزيارة أبويها كذا في المعراج."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:202، ط: دار الفكر)

حاشیۃ  الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ويؤخذ الكفن "مما كان يلبسه" الرجل "في حياته" يوم الجمعة والعيدين ويحسن للحديث "حسنوا أكفان الموتى فإنهم يتزاورون فيما بينهم ويتفاخرون بحسن أكفانهم."

(كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، ص:576، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا بأس في الكفن ببرود وكتان وفي النساء بحرير ومزعفر ومعصفر) ‌لجوازه ‌بكل ‌ما يجوز لبسه حال الحياة وأحبه البياض أو ما كان يصلي فيه."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:205، ط: دار الفكر)

2۔ فقہائے کرام کی عبارتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے لیے مسنون تین کپڑے ہیں، تین سے زائد مکروہ ہیں، فقہائے احناف میں سے صرف شیخ عصام  کا قول ملتا ہے کہ تین سے زائد کی بھی گنجائش ہے، جیسا کہ فتاویٰ شامی اور فتاویٰ تاتارخانیہ میں مذکور ہے۔لہذا  یہ بات توواضح ہے کہ کفنِ مسنون سے زائد  مکروہ ہے،  البتہ قیمت میں اضافہ  کا معیار بھی معلوم ہے جو پہلے جزء میں گزرا کہ مرحوم کے عیدین کے کپڑوں کے حساب سے کفن لایا جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: ‌ولا ‌بأس ‌بالزيادة ‌على ‌الثلاثة) كذا في النهر عن غاية البيان، ونقله قبله عن المجتبى الكراهة لكن قال في الحلية عن الذخيرة معزيا إلى عصام: أنه إلى خمسة ليس بمكروه ولا بأس به. اهـ. ثم قال: ووجه بأن ابن عمر كفن ابنه واقدا في خمسة أثواب قميص وعمامة وثلاث لفائف وأدار العمامة إلى تحت حنكه رواه سعيد بن منصور."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:202، ط: دار الفكر)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي كتاب الخنثى لعصام تكفين الرجل زيادة على ثلاثة أثواب إلى خمسة أثواب التي هي كفن النساء ليس بمكروه ولا بأس به."

(كتاب الصلاة، الفصل الثاني و الثلاثون في الجنائز، ج:3، ص:28، ط: مكتبه زكريا، الهند)

البحر الرائق میں ہے:

"وأشار المصنف إلى أنه لا يزاد للرجل على ‌ثلاثة وصرح في المجتبى بكراهتها."

(كتاب الجنائز، تكفين الميت، ج:2، ص:189، ط: دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"أكثر ما يكفن فيه الرجل ثلاثة أثواب: إزار، ورداء، وقميص وهذا عندنا، وقال الشافعي: لا يسن القميص في الكفن، وإنما الكفن ثلاث لفائف، واحتج بما روي عن عائشة «أن النبي صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب بيض سحولية ليس فيها قميص ولا عمامة» ولنا ما روي عن «عبد الله بن مغفل رضي الله عنه أنه قال: كفنوني في قميصي فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن في قميصه الذي توفي فيه» ، وهكذا روي عن ابن عباس «أن النبي صلى الله عليه وسلم كفن في ثلاثة أثواب: أحدها القميص الذي توفي فيه» والأخذ برواية ابن عباس أولى من الأخذ بحديث عائشة؛ لأن ابن عباس حضر تكفين رسول الله صلى الله عليه وسلم ودفنه وعائشة ما حضرت ذلك على أن معنى قولها: ليس فيه قميص أي: لم يتخذ قميصا جديدا.

وروي عن علي رضي الله عنه أنه قال: " كفن المرأة خمسة أثواب، وكفن الرجل ثلاثة، " ولا تعتدوا إن الله لا يحب المعتدين "؛ ولأن حال ما بعد الموت يعتبر بحال حياته، والرجل في حال حياته يخرج في ثلاثة أثواب عادة: قميص، وسراويل، وعمامة، فالإزار بعد الموت قائم مقام السراويل في حال الحياة؛ لأنه في حال حياته إنما كان يلبس السراويل لئلا تنكشف عورته عند المشي، وذلك غير محتاج إليه بعد موته فأقيم الإزار مقامه."

(کتاب الجنائز، فصل كيفية وجوب التكفين، ج:1، ص:306، ط: دار الكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"وتكره الزيادة على الأثواب الثلاثة للرجل، والخمسة للمرأة عند الجمهور."

(إسراف، ‌‌الإسراف في التكفين والتجهيز، ج:4، ص:189، ط: دارا لسلاسل-کویت)

3۔ مذکورہ  عبارت میں ایک ہی موضوع سے متعلق دو مسائل /  تفریعات ذکر کی گئی ہیں:

الف:اگر کوئی شخص بطور تبرع میت کے لیے تجہیز و تکفین  کا انتظام کرنا چاہے تو ورثاء پر اس کا قبول کرنا بہتر اور اولیٰ ضرور ہے لیکن واجب نہیں ہے، خواہ میت مقروض ہی کیوں نہ ہو اور قرض خواہوں کے حق میں کمی کیوں نہ ہورہی ہو؛ کیوں کہ تجہیز و تکفین کا خرچہ قرض کی ادائیگی پر مقدم ہے، لہذا پہلے کفن دفن کا  خرچہ نکالا جائے گا اس کے بعد  قرض ادا کیا جائے گا۔ 

البحر الرائق میں ہے:

"وقالوا ‌إذا ‌كان ‌بالمال قلة وبالورثة كثرة ‌فكفن ‌الكفاية ‌أولى، وعلى القلب كفن السنة أولى ومقتضاه أنه لو كان عليه ثلاثة أثواب، وليس له غيرها، وعليه دين أن يباع واحد منهما للدين؛ لأن الثالث ليس بواجب حتى ترك للورثة عند كثرتهم فالدين أولى» مع أنهم صرحوا كما في الخلاصة بأنه لا يباع شيء منها للدين كما في حالة الحياة إذا أفلس، وله ثلاثة أثواب، وهو لابسها ولا ينزع عنه شيء ليباع."

(کتاب الجنائز، تکفین المیت، ج:2، ص:189، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

«أقول: أنت خبير بأن الإشكال جاء من تصريحهم بعدم الفرق بين الحي والميت فأنى يصح هذا الجواب؟ نعم يصح على ما قاله السيد في شرح السراجية من أنه إذا كان الدين مستغرقا فللغرماء المنع من تكفينه بما زاد على كفن الكفاية. وقال الشارح في فرائض الدر المنتقى وهل للغرماء المنع من كفن المثل قولان والصحيح نعم اهـ ومثله في سكب الأنهر لكن قال أيضا: ألا ترى أنه لو كان للمديون ثياب حسنة في حال حياته ويمكنه الاكتفاء بما دونها يبيعها القاضي، ويقضي الدين ويشتري بالباقي ثوبا يلبسه فكذا في الميت المديون كذا اختاره الخصاف في أدب القاضي. اهـ.

ثم رأيت مثله في حاشية الرملي عن شرح السراجية المسمى ضوء السراج للكلاباذي: وحينئذ فلا إشكال، ولا جواب وبه علم أن ما مر عن الخلاصة خلاف الصحيح وقد يوفق بحمل ما في الخلاصة في الحي على ما إذا لم يكتف بما دون الثلاثة، وفي الميت على ما إذا لم يمنعهم الغرماء قال في شرح قلائد المنظوم صحح العلامة حيدر في شرحه على السراجية المسمى بالمشكاة بأن للورثة تكفينه بكفن المثل ما لم يمنعهم الغرماء. اهـ.

قلت: والظاهر أن المراد بعدم المنع الرضا بذلك، وإلا فكيف يسوغ للورثة تقديم المسنون على الدين الواجب ثم إن هذا مؤيد لما بحثناه من أن كفن الكفاية واجب بمعنى أنه لا يجوز أقل منه عند الاختيار ثم رأيت في شرح المقدسي قال: وهذا أقل ما يجوز عند الاختيار، والله - تعالى - أعلم

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، ج:2، ص:203، ط: دار الفكر)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فأول ما يبدأ به تجهيزه وتكفينه ودفنه بالمعروف كما روي «أن ابن عمر رضي الله عنه لما استشهد يوم أحد لم يوجد له إلا نمرة فكان إذا كان غطي بها رأسه بدا رجلاه وإذا غطي بها رجلاه بدا رأسه فأمر صلى الله عليه وسلم أن يغطى بها رأسه ويجعل على رجليه من الإذخر.

، وقد نقل ذلك في حال حمزة رضي الله عنه أيضا ولم يسأل عن الدين عليهما فلو كان الدين مقدما على الكفن لسأل عن ذلك كما سأل عن الدين حتى كان لا يصلي على من مات وعليه دين فقال «هل على صاحبكم دين» ثم الكفن لباسه بعد وفاته فيعتبر بلباسه في حياته ولباسه في حياته مقدم على دينه حتى لا يباع على المديون ما عليه من ثيابه. فكذلك لباسه بعد موته."

(كتاب الفرائض، ج:29، ص:136، ط: دار المعرفة)

ب:اس عبارت میں عام قبرستان سے متعلق ایک  بات پر سائل کو اشکال ہوا  کہ خاص قبرستان میں دفن کرنا تو درست نہیں، یہاں کیسے مذکور ہے اگر ورثاء چاہیں تو خاص قبرستان میں بھی دفن کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فتاوی شامی کی ذکرکردہ عبارت میں خاص قبرستان سے مراد یہ ہے کہ ایسی جگہ جو ویسے تو قبرستان کے لیے نہ ہو لیکن اُسے چند خاص مرحومین کے لیے متعین کردیا جائے، یہ درست نہیں ہے۔ رہی بات مفید الوارثین میں ذکرکردہ عام اور خاص قبرستان کی بات،  تو اس میں یہ واضح رہے کہ ایک تو عام مقبرۃ المسلمین ہوتا ہے  جو حکومت کی طرف سے  قبرستان کے لیے وقف شدہ جگہ ہوتی ہے جہاں ہر خاص و عام کو بلا عوض دفن کیا جاسکتا ہے، اور ایک خاص قبرستان ہوتا ہے جو خاص برادری، سرکاری / نیم سرکاری ادارے نے بنایا ہو، تاہم وہاں قبر کے لیے زمین مفت فراہم نہ کی جاتی ہو، بلکہ بالعوض زمین دی جاتی ہو، جیسا کہ موجودہ زمانہ میں عام قبرستانوں میں ایسا ہوتا ہے،  تو ورثاء کے لیے ترکہ کی رقم سے قبر کی جگہ خرید کر میت کو دفن کرنا جائز ہے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولو استأجره ليحفر له قبرا ولم يسم في أي المقابر جاز استحسانا وينصرف إلى المكان الذي يدفن فيه أهل تلك المحلة موتاهم قال مشايخنا هذا الجواب بناء على عرف أهل الكوفة فإن لكل محلة مقبرة خاصة يدفنون موتاهم فيها ولا ينقلون موتاهم إلى مدافن محلة أخرى أما في ديارنا ينقل الموتى من محلة إلى مقابر محلة أخرى فلا بد من تسمية المكان حتى لو كان موضعا كان لأهل كل محلة مقبرة خاصة لا ينقلون موتاهم إلى محلة أخرى أو كان موضعا لهم مقبرة واحدة يجوز لهم الإجارة من غير تسمية المكان. كذا في المحيط."

(كتاب الإجارة، الباب السادس عشر في مسائل الشيوع في الإجارة، ج:4، ص:448، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں