بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تجدیدِ ایمان کا طریقہ اور غیر اعلانیہ کفریہ کلمہ کہنے کا حکم


سوال

تجدیدِ ایمان کا صحیح طریقہ کار بتا دیں؟ کیا تجدیدِ  ایمان کسی عالم یا گواہوں کے سامنے کرنا ضروری ہے؟اگر کوئی مسلمان معاذاللہ مرتد ہو جائے یعنی کوئی کفر بک دے یا معاذاللہ دین اسلام سے ہٹ جائے، لیکن اعلانیہ طور پر کفر نہ بکا ہو نہ اعلانیہ طور پر دین اسلام چھوڑا ہو،  بلکہ کسی کے علم میں بھی نہ ہو کہ وہ مرتد ہو چکا ہے، لیکن اللہ اس کو توبہ کی توفیق عطا کر دیں اور  وہ دوبارہ  دائرہ اسلام میں داخل ہونا چاہے تو کیا اس کو کسی کو اپنے ارتداد کے بارے میں بتانا ضروری ہے یا کسی کو بتائے بغیر اللہ سے توبہ اور تجدید ایمان کر لے تو کیا دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے گا؟نیز تجدید ایمان کا کیا طریقہ ہے ااور پہلے توبہ کرنی  چاہیے یا  تجدیدِ  ایمان؟

جواب

تجدید ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ دل اور زبان  سےاسلام کااقرار کرے (یعنی کلمہ پڑھے)اور اسلام کے علاوہ باقی تمام  ادیان سے  (یا)جس دین کی طرف گیا ہے اس سے براءت کا اظہار کرے،اوراگر کوئی کفریہ کلمہ کہا ہے تو اس سے توبہ کرے ،اس کے لیےکسی عالم یا گواہوں کا ہونا ضروری نہیں  ہے ۔

واضح رہےکہ اگر کوئی مسلمان معاذاللہ مرتد ہوجائے یعنی کلمہ  کفرکہہ دےیادین اسلام سےاپنے ارادے/ اختیار سے ہٹ جائے توایساانسان دائرۂ  اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، خواہ وہ کلمات اعلانیہ   طورپر کہےہو  یا غیراعلانیہ کہے ہواور اس سے توبہ  کرنے کے  لیے اورایمان   کی  تجدیدکے  لیے کسی کے علم میں  لانا ضروری نہیں ہے، ہاں  اگر  بات   لوگوں  کے  درمیان  مشہور  ہوگی تو پھر کسی  عالم کے پاس جاکر بھی  تجدید ایمان  کرے  ۔

اگر ایسا کہنے والا مرد ہو تو اس کا نکاح ختم ہوجاتاہے  اور   اس کے ذمہ  لازم ہوتاہے کہ فورًا  اپنے اسلام اورنکاح کی تجدید کرے، اس لیے کہ ان کلمات سے توبہ کرلینے  اور دوبارہ  سے دائرۂ  اسلام  میں داخل ہونے کے بعد  نکاح کا اعادہ لازم ہوجاتا ہے، لیکن جب اللہ اس کو توبہ کی تو فیق عطا فرمائیں تو کسی کو اپنے ارتداد کے بارے میں بتانا ضروری نہیں ہے ، ایسا آدمی  خودتجدید ایمان  اور توبہ کر لے تو اسلام میں داخل ہوجائے گا۔ البتہ نکاح کی تجدید دو مسلمان مرد  یا ایک مرد اور دو عورت گواہوں   کی موجودگی میں کرنا ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإسلامه أن يتبرأ عن الأديان) سوى الإسلام (أو عما انتقل إليه) بعد نطقه بالشهادتين، وتمامه في الفتح؛ ولو أتى بهما على وجه العادة لم ينفعه ما لم يتبرأ بزازية."

(کتاب الجہاد ،باب المرتد،226/4ط سعید)

وفیہ ایضاّ:

"أن ما يكون كفرا اتفاقا يبطل العمل والنكاح، وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح وظاهره أنه أمر احتياط"

(کتاب الجہاد،باب المرتد،230/4 ط:سعید)

وفيه ايضا:

"(وشرائط صحتها العقل) والصحو (والطوع) فلا تصح ردة مجنون، ومعتوه وموسوس، وصبي لايعقل وسكران ومكره عليها، وأما البلوغ والذكورة فليسا بشرط بدائع".

قال ابن عابدین رحمه الله:

" قال في البحر والحاصل: أن من تكلم بكلمة للكفر هازلاً أو لاعبًا كفر عند الكل ولا اعتبار باعتقاده، كما صرح به في الخانية. ومن تكلم بها مخطئًا أو مكرهًا لايكفر عند الكل، ومن تكلم بها عامدًا عالمًا كفر عند الكل، ومن تكلم بها اختيارًا جاهلاً بأنها كفر ففيه اختلاف. اهـ"

(باب المرتد، 224/4، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102372

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں