میرا سوال ہے کہ اگر کسی انسان نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی ہو، اس کے بعد عدت کے تین مہینے گزر جائے اور نکاح ٹوٹ جائے گا ،میں نے بہت کتابوں میں یہ دیکھا ہے کہ اگر اس نے پھر اس کے ساتھ نکاح کیا یعنی اس کا نکاح تین مہینوں کے بعد ٹوٹ جائے گا اس کے بعد نئے سرے سے نکاح کرنے ہوں گے اور بیوی حلال ہو جائے گی؛ لیکن بہت سی کتابوں میں ایسا لکھا ہے کہ ابھی بھی شوہر کے پاس دو طلاقوں کا حق ہے، مجھے یہ دو طلاق سمجھ میں نہیں آرہے ہیں کہ جب دوسرا پھر سے نکاح پڑھا گیا تو پھر نکاح کی صورت اب پہلی نکاح کی صورت جیسی ہے تو اس اثنا میں اب پھر سے اگر بیوی کو طلاق دینا ہے یا تو تین طلاقوں سے گزرنا پڑے گا یا طلاق بائن سے ہی بیوی فارغ ہو جائے گی ،برائے کرم راہ نمائی فرمائے ؟
واضح رہے کہ شریعت میں بقیہ طلاقوں کو ختم کرنے کا مدار دوسرے شوہر کے ساتھ نکاح کرنے پر ہے ،اگر عورت طلاق کے بعد عدت گزار کر دوسرے جگہ شادی نہیں کرتی اور شوہر اول سے دوبارہ تجدید نکاح کرتی ہے تو تجدید نکاح کی وجہ سے یا عدت میں رجوع کرنے کی وجہ سے سابقہ طلاق ختم نہیں ہو گی اور بقیہ طلاق کا مالک رہے گا، اس لیے عدت میں رجوع کرنے اور عدت کے بعد تجدید نکاح کرنے کی صورت میں شوہر بقیہ طلاقوں کا مالک رہے گا ،جب تک وہ عورت دوسری جگہ شادی نہ کرے اور جب دوسری جگہ شادی ہوجائے اور دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے، پھر کسی وجہ سے(طلاق یا خلع ) کے ذریعہ رشتہ ختم ہوجائے اور عدت گزارنے کے بعد شوہر اول سے دوبارہ نکاح کرے تو اس صورت میں شوہر اول از سر نو تین طلاقوں کا مالک ہوگا اگرچہ اس نے پہلے تین سے کم طلاقیں دی ہوں ۔
لہذا صورت ِ مسئولہ میں جب شوہر اپنی بیوی کو ایک طلاق رجعی دے اور عدت کے دوران رجوع نہ کرے تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد اگر پھر باہمی رضامندی سے دونوں کی شادی ہو جاتی ہے تو شوہر کو از سرِ نو تین طلاقوں کا حق نہیں ہوگا، بلکہ تین میں سے جتنی طلاقیں باقی ہیں صرف ان کا ہی حق ہوگا ۔
اور اگر طلاق کے بعد عورت نے کسی دوسرے مرد سے شادی کر کے حقوق زوجیت ادا کرلیے ہوں، اور کسی بھی وجہ سے طلاق یا خلع کی صورت میں جدائی ہو گئی ہو یا شوہر کا انتقال ہو گیا ہو، تو عدت گزار کر پہلے شوہر سے شادی کر لی ہو تو ایسی صورت میں پہلے شوہر کو دوبارہ تین طلاقوں کا حق حاصل ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(والزوج الثاني يهدم بالدخول) فلو لم يدخل لم يهدم اتفاقا قنية (ما دون الثلاث أيضا) أي كما يهدم الثلاث إجماعا لأنه إذا هدم الثلاث فما دونها أولى خلافا لمحمد، فمن طلقت دونها وعادت إليه بعد آخر عادت بثلاث لو حرة وثنتين لو أمة. وعند محمد وباقي الأئمة بما بقي وهو الحق فتح، وأقره المصنف كغيره.
مطلب مسألة الهدم (قوله: والزوج الثاني) أي نكاحه نهر (قوله: ما دون الثلاث) أي يهدم ما وقع من الطلقة، أو الطلقتين فيجعلهما كأن لم يكونا، وما قيل إن المراد أنه يهدم ما بقي من الملك الأول فهو من سوء التصور كما نبه عليه الهندي، أفاده في النهر (قوله: أي كما يهدم الثلاث) تفسير لقوله أيضا (قوله: لأنه إلخ) جواب عما قاله محمد من أن قوله تعالى {حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]- جعل غاية لانتهاء الغليظة فيهدمها. والجواب أنه إذا هدمها يهدم ما دونها بالأولى فهو مما ثبت بدلالة النص، وتمام مباحث ذلك في كتب الأصول، وقولهما مروي عن ابن عمر وابن عباس، وقول محمد مروي عن عمر وعلي وأبي بن كعب وعمران بن الحصين كما في الفتح."
(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ،ج:3،ص:418،سعید)
الاختیار لتعلیل المختار میں ہے :
"قال: (والزوج الثاني يهدم ما دون الثلاث) ، وصورته إذا طلق امرأته طلقة أو طلقتين وانقضت عدتها، وتزوجت بزوج آخر ودخل بها ثم طلقها، وانقضت عدتها ثم تزوجها الأول عادت إليه بثلاث طلقات، وهدم الزوج الثاني الطلقة والطلقتين كما هدم الثلاث."
(کتاب الطلاق،باب الرجعۃ،ج:3،ص:151،دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507100812
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن