بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیڑھی ناک کی سرجری کا حکم


سوال

میری ناک کی ہڈی بچپن میں ٹوٹ گئی تھی اور بچپن میں آپریشن نہیں ہو سکتا ،تو اس کی وجہ سے اب مجھے ایک طرف سے سانس نہیں آتا اور میری ناک بھی بھدی لگتی ہے ،کیا میں آپریشن کے ذریعے صرف اس ہڈی کو سیدھا کروا سکتی ہوں ،ناک کی شیپ کو کچھ نہیں کرنا بس ہڈی کو سیدھا کروا سکتی ہوں ؟کیا یہ میرےلیےجائز ہے ؟کیونکہ میری ناک کی ہڈی اتنی ٹیڑھی ہے کہ وہ چہرے کے ایک طرف "د" لکھا لگتا ہےاور سب میرا مذاق اڑاتے ہیں ،کیا میر ےلیے ہڈی سیدھی کرانا جائز ہے ؟

 

جواب

واضح رہے کہ صرف ان انسانی اعضاء کے  آپریشن کی اجازت ہے ،جن میں سخت تکلیف ہو،یا جن اعضاء کا اگر آپریشن نہ کیا جائے توبیماری بڑھنے یاپھیلنے کا امکان ہو یاعیب کے ازالہ کے  لیے ہو ،تاہم حسن بڑھانے کے  لیے آپریشن نہیں کرایاجاسکتا؛ کیوں کہ  یہ اللہ تعالی  کی  تخلیق  میں تغیر کرناہے جو کہ  حرام  ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں ناک کے ایک طرف سانس نہ آنے کی وجہ سے اور ناک کی ہڈی  کے ٹیڑھا ہونے کے وجہ سے  سائلہ آپریشن کرواسکتی ہیں اور ناک کو آپریشن کے ذریعہ سیدھا کرواسکتی  ہیں ۔

فتاوی شامی ہے :

"واتخاذ الأنف فجوز الأنف من الذهب لضرورة نتن الفضة لأن المحرم لا يباح إلا لضرورة وقد اندفعت في السن بالفضة فلا حاجة إلى الأعلى وهو الذهب. قال الأتقاني: ولقائل أن يقول مساعدة لمحمد لا نسلم أنها في السن ترتفع بالفضة لأنها تنتن أيضا وأصل ذلك ما روى الطحاوي بإسناده إلى «عرفجة بن أسعد أنه أصيب أنفه يوم الكلاب في الجاهلية فاتخذ أنفا من ورق فأنتن عليه، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يتخذ أنفا من ذهب، ففعل."

(کتاب الحظر والاباحہ،362/6،ط:شرکۃ مکتبۃومطبعۃ مصطفی الباہی الحلبی)

امداد الفتاوی میں ہے :

"کہ علامہ شامی ؒ کی اس روایت  سے معلوم ہوا کہ دانت بنوانا شرعا درست ہے ،اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضرورت  اور زینت ہی دونوں کے لئے درست ہے کیونکہ ناک بنوانا ظاہر ہے کہ زینت ہی کے لئے ہوگا اور وہ بھی جائز رکھا گیا ہے ، البتہ اگر زینت کو آلہ فجور بنایا جائے تواس عارض کی وجہ سے بیشک گناہ ہے" ۔

مسلم شريف ميں هے:

"عن جابر قال:  بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى أبي بن كعب طبيبا فقطع منه عرقا، ثم كواه عليه."

حضرت جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک  طبیب کو بھیجا جس نے ایک رگ کاٹی پھر اس کو داغا۔

(باب لکل داء دواء ،22/8 رقم الحدیث:2208،ط:دارالطباعۃالعامریۃ۔ترکیا)

تفسیر قرطبی  میں ہے :

"وهذه ‌الأمور ‌كلها قد شهدت الأحاديث بلعن فاعلها وأنها ‌من ‌الكبائر. واختلف في المعنى الذي نهي لأجلها، فقيل: لأنها من باب التدليس. وقيل: من باب تغيير خلق الله تعالى، كما قال ابن مسعود، وهو أصح، وهو يتضمن المعنى الأول. ثم قيل: هذا المنهي عنه إنما هو فيما يكون باقيا، لأنه من باب تغيير خلق الله تعالى، فأما مالا يكون باقيا كالكحل والتزين به للنساء فقد أجاز العلماء ذلك مالك وغيره، وكرهه مالك للرجال."

(تفسیرقرطبی ،393/5،ط: دار الکتب المصریۃ۔القاھرہ)

فقط واللہ واعلم


فتوی نمبر : 144508101562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں