بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تیغ بند نامی تعویذ کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں یہ بات مشہور ہے کہ "تیغ بند" نامی تعویذ کو بازو پر باندھنے سے مذکورہ شخص پر بندوق اور دیگر آتشیں اسلحہ کی گولیاں جام ہوجاتی ہیں اور نکلتی ہی نہیں، کیا اسلامی علوم میں ایسی کوئی تعویذ یا دم موجود ہیں؟ یا یہ محض افسانہ ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں  کسی تعویذ کو مؤثر بالذات سمجھنا عقیدے کا فساد ہے، البتہ مؤثر بالذات اللہ رب العزت کو جانتے ہوئے، اسباب کے درجے میں  تیغ بندی کروانا جائز ہوگا، بشرطیکہ اس تعویذ کے کلمات درست ہوں، اور تعویذ لکھنے سے پہلے یا بعد میں یا عمل کے دوران کوئی بھی غیر شرعی امر نہ کرنا پڑتاہو۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ موت کا وقت مقرر ہے، اور اس سے مفر ممکن نہیں ہے، زندگی کی حفاظت کے جائز ظاہری اسباب اختیار کرنے کا انسان مکلف بھی ہے، اور تحفظ کا احساس فطری بھی ہے، لیکن موت کے خوف سے تعویذ کا سہارا لینا (گو تعویذ جائز حدود میں آتاہو) بہرصورت پسندیدہ نہیں ہے۔ موت اپنے مقرر وقت پر ہی آئے گی، گولی سے نہ آئی تو طبعی آجائے گی، اس لیے اصل مقصد پر دھیان دینا چاہیے کہ مابعد الموت کی تیاری کرے۔

اسلامی علوم میں تعویذات کے عنوان سے باقاعدہ علم نہیں ہے، بلکہ اسلامی تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ جو انسان خود پڑھ سکتاہے وہ قرآنِ مجید و احادیثِ مبارکہ  سے ثابت شدہ دعائیں وغیرہ خود پڑھے، بصورتِ دیگر جائز تعویذ شرائط کے ساتھ استعمال کرسکتاہے۔ 

جہاں تک "تیغ بند" کے امکان یا وجود کی بات ہے تو عقلاً و شرعًا یہ محال نہیں ہے، اس کا وجود ممکن ہے، جیساکہ لوگوں میں مشہور بھی ہے، البتہ شرعی حکم سابقہ سطور میں گزرچکا ہے۔

تعویذات کے حوالے سے مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

کیا تعویذ پہننا جائز ہے؟

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں