بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طائف زیارت سے واپسی پر عمرہ کا حکم


سوال

 فروری میں میاں بیوی  عمرہ کرنے کے بعد طائف گئے، اور مکہ واپس آۓ، احرام بھی نہ باندھا اور پھر سے عمرہ کئے بغیر وطن واپس آگئے، اب دوبارہ جا رہے ہیں، کیا اب   عمرہ کرنے سے دم اور واجب عمرہ دونوں ساقط ہو جائیں گے، اور کیا یہ والا عمرہ کسی بھی میقات سے ہو سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ"میقات"سے گزرنے والے شخص پر میقات سے پہلے احرام باندھنا اس وقت ضروری ہے جب اس کا ارادہ حرم جانے کا ہو، اگر کسی شخص کا ارادہ حرم کا نہ ہو، بلکہ حل یا آفاق جانے کا ہو، اور اسے میقات کے اندر سے گزرنا پڑے تو اس پر احرام باندھنا ضروری نہیں ہوتا۔

طائف میقات سے باہر ہے، آپ کا وہاں سے احرام کے بغیر مکہ مکرمہ آنا صحیح نہیں تھا،  لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ پر ایک دم اور ایک حج یا عمرے کی قضا لازم تھی، اب  آپ    دوبارہ عمرے پر   جارہے ہیں تو آپ کا عمرہ کرنے سے پچھلی دفعہ والے عمرے کی بھی  قضا  ہوجائے گی، تاہم میقات سے بغیر احرام گزرنے کا دم باقی رہے گا، جو آپ کو دینا پڑے گا۔

فتاویٰ ہندیہ  میں ہے:

"ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکة بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلها فعلیه حجة أو عمرۃ کذا فی محیط السرخسی فی باب دخول مکة بغیر إحرام".

( کتاب المناسک، الباب الثانی فی المواقیت،٢٢١/١،ط : رشیدیة)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وقد تجب کما إذا اجاوز المیقات بلا إحرام

(قوله: کما إذا جاوز المیقات بلا إحرام) أی فإنه یجب علیه أن یعود إلی المیقات ویلبی منه، وکذا یجب علیه قبل المجاوزۃ، قال فی الهدایة: ثم الآفاقی إذا انتهی إلی المواقیت علی قصد دخول مکة علیه أن یحرم قصد الحج أو العمرۃ عندنا أو لم یقصد لقوله صلی اللہ علیه وسلم: لایجاوز أحد المیقات إلا محرما ولو لتجارۃ ولأن وجوب الإحرام لتعظیم هذہ البقعة الشریفة، فیستوی فیه التاجر والمعتمر وغیرهما".

( کتاب الحج،٤٥٥/٢،ط :  سعید)

البحرا لرائق میں ہے :

"(قوله: ‌من ‌جاوز ‌الميقات ‌غير ‌محرم ثم عاد محرما ملبيا أو جاوز ثم أحرم بعمرة ثم أفسد، وقضى بطل الدم) أي من جاوز آخر المواقيت بغير إحرام ثم عاد إليه، وهو محرم، ولبى فيه فقد سقط عنه الدم الذي لزمه بالمجاوزة بغير إحرام؛ لأنه قد تدارك ما فاته أطلق الإحرام فشمل إحرام الحج فرضا كان أو نفلا، وإحرام العمرة، وأشار إلى أنه لو عاد بغير إحرام ثم أحرم منه فإنه يسقط الدم بالأولى؛ لأنه أنشأ التلبية الواجبة عند ابتداء الإحرام."

(کتاب الحج،باب مجاوزۃ الیقات بغیر احرام،٥١/٣، ط: دارالکتاب الاسلامی)

غنیة الناسك" میں  ہے:

"آفاقي مسلم مکلف أراد دخول مکة أو الحرم  ولولتجارة أو سیاحة وجاوز آخر مواقیته غیر محرم ثم أحرم أولم یحرم أثم ولزمه دم وعلیه العود إلی میقاته الذي جاوزه أو إلی غیره أقرب أو أبعد ، وإلی میقاته الذي جاوزه أفضل، وعن أبي یوسف: إن کان الذي یرجع إلیه محاذیاً لمیقاته الذي جاوزه أو أبعد منه سقط الدم  وإلا فلا، فإن لم یعد ولا عذر له أثم؛ لترکه العود الواجب". 

(باب مجاوزة المیقات بغیر إحرام ،٦٠، ط: إدارة القرآن) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505101112

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں