بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طائف سے واپسی پر احرام نہ باندھنے کا حکم


سوال

میں کچھ سالوں پہلے حج پہ گیا تھا، اور وہاں سے میں طائف کے شہر گھومنے کی نیت سے گیا (اس وقت تک مجھے مکہ مکرمہ میں 15دن سے زیادہ ہوچکے تھے)، پھر واپسی پر میں نہ میقات گیا نہ عمرہ کیا اور شہر گھوم کر واپسی آگیا۔  سوال یہ ہے کہ کیا مجھ پر عمرہ کرنا لازم تھا؟ اور اگر لازم تھا تو اب اس کا کفارہ کیا ہوگا؟

جواب

طائف میقات سے باہر ہے ، وہاں سے احرام کے بغیر مکہ مکرمہ آنا صحیح نہیں تھا،  لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے چوں کہ  طائف سے واپسی پر نہ میقات سے احرام باندھا اور نہ عمرہ کیا تھا، لہٰذا  سائل  پر ایک دم اور ایک حج یا عمرے کی قضا لازم ہوگی، یعنی خواہ حج کر لے یا عمرہ کر لے، البتہ اگر طائف سے واپسی کے بعد اسی  سال حج یا عمرہ خواہ کسی بھی نیت سے کیا ہو،  توجوعمرہ یا حج اس پرواجب ہوا تھا وہ ساقط ہوگیا البتہ میقات سے بغیر احرام گزرنے کا  دم واجب رہے گا، اور اگر اس سال حج یا عمرہ نہیں کیا تو خاص قضاء  کی نیت سے حج یا عمرہ کرنا ضروری ہوگا۔

فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے: 

"‌ولا ‌يجوز ‌للآفاقي أن يدخل مكة بغير إحرام نوى النسك أو لا ولو دخلها فعليه حجة أو عمرة كذا في محيط السرخسي في باب دخول مكة بغير إحرام."

(كتاب المناسك، الباب الثالث في الإحرام، ١/ ٢٢١، ط: سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) يجب (على من دخل مكة بلا إحرام) لكل مرة (حجة أو عمرة) فلو عاد فأحرم بنسك أجزأه عن آخر دخوله، وتمامه في الفتح (وصح منه) أي أجزأه عما لزمه بالدخول (لو أحرم عما عليه) من حجة الإسلام أو نذر أو عمرة منذورة لكن (في عامه ذلك) لتداركه المتروك في وقته (لا بعده) لصيرورته دينا بتحويل السنة."

(كتاب الحج، باب الجنايات في الحج، ٢/ ٥٨٣، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں