ایک شخص پاکستان سے عمرے کی نیت سے سعودی عرب جدہ گئے، پھر اس نے ایک عمرہ وہاں پر جاکر کرلیا ،پھر زیارت کی نیت سے طائف چلے گئے، وہاں عشاء کی نماز پڑھی، پھر وہاں سے اپنی رہائش گاہ پر آگئے، جو کہ حدود حرم سے ایک کلو میٹر دور ہے، اور پھر پاکستان واپس آگئے ۔ سوال یہ ہے کہ یہاں پر ایک شخص کا کہنا ہے کہ آپ پر طائف کا عمرہ واجب تھا اور آپ نے طائف کا عمرہ نہیں کیا آپ پر عمرہ کی قضا ہے اور اس کا دم بھی لازم ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں۔
صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا چونکہ طائف سے واپسی میں میقات سے گزرتے ہوئے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ نہیں تھا، بلکہ حل (یعنی حدود حرم اور میقات کے درمیان والے علاقہ ) میں جانے کا ارادہ تھا، اس لئے مذکورہ شخص پر عمرہ واجب نہیں تھا، لہذا عمرہ نہ کرنے کی وجہ سے نہ وہ گناہ گار ہوا، اور نہ ہی اس پر عمرے کی قضا یا دم واجب ہے۔
"فلو دخل كوفي البستان) أي: مكان من الحل داخل الميقات (لحاجة) قصدها يعني: أن الدخول لهذا القصد (له دخول مكة بلا إحرام ووقته) أي: ميقاته البستان، نبه بهذا التفريغ على أن ما مر من لزوم الإحرام من الميقات إنما هو على من قصد أحد النسكين أو دخول مكة والحرم، فقصد مكة والحرم موجب له سواء قصد نسكاً أو لا أما إذا قصد مكاناً من الحل داخل الميقات فإنه يجوز له الدخول لالتحاقه بأهله سواء نوى الإقامة الشرعية فيه أو لا في ظاهر الرواية".
(النهر الفائق: باب مجاوزة الميقات بغير إحرام (2/ 152)، ط. دار الكتب العلمية، الطبعة الأولى:1422هـ =2002م)
فقط واللہ ٲعلم
فتوی نمبر : 144406101317
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن