بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحویل قبلہ کے بعد پہلی نماز کون سی تھی؟


سوال

جب قبلہ تبدیل ہوا اس وقت 15 شعبان المعظم تھی میں پوچھنا چاہ رہی ہوں نماز کا وقت کون سا تھا اس ٹائم ؟ مختلف روایات ہیں جس میں ظہر بھی آ رہا ہے ،مغرب اور عصر بھی آ رہا ہے؟

جواب

جمہور کا قول ہے کہ ہجرت  سے اٹھارہ ماہ بعد نصف شعبان میں قبلہ کی تبدیلی عمل میں آئی اور ابن سعد نے واقدی  رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ تبدیلی بروز منگل ۱۵ شعبان کو رونما ہوئی ۔

بعض روایات میں ظہر کا ذکر ہے اور بعض میں عصر کی نماز کا امام بخاری رحمہ اللہ (ابو نعیم، زہیر، ابو اسحاق) حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس  کی طرف رخ کر کے ۱۶ یا ۱۷ ماہ نماز پڑھی اور آپ کو کعبہ کا قبلہ ہونا پسند تھا اور آپ نے کعبہ کی طرف رخ کر کے پہلی مکمل نماز عصر پڑھی اور بیشتر مقدیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی چنانچہ ان میں سے ایک مقتدی دوسری مسجد میں   گیاوہاں لوگ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ رہے تھے تو اس نے کہا میں حلفا کہتا ہوں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ کر آیا ہوں چناں چہ وہ نماز میں ہی بیت اللہ کی طرف گھوم گئے اور تحویل قبلہ سے پہلے جو لوگ اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں ، معلوم نہیں کہ ہم ان کی نمازوں کے بارے میں کہا کہیں تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی اللہ تعالی تمہاری نماز کو بے فائدہ کر دے یہ نہیں ہو سکتا  اس روایت کو امام مسلم نے دوسری سند سے بیان کیا ہے۔

تاریخ ابن کثیر میں ہے:

"قال الجمهور الاعظم: إنما صرفت في النصف من شعبان، على رأس ثمانية عشر شهرا من الهجرة. ثم حكى عن محمد بن سعد، عن الواقدي، أنها حولت يوم الثلاثاء النصف من شعبان، وفي التحديد نظر. والله أعلم."

(جلد ۲، ص: ۳۷۳، ط: دار المعرفۃ بیروت)

تاریخ ابن کثیر میں ہے:

"وقد قال البخاري: حدثنا أبو نعيم، سمع زهيرا، عن أبي إسحاق، عن البراء، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى إلى بيت المقدس ستة عشرا شهرا، أو سبعة عشر شهرا، وكان يعجبه أن تكون قبلته إلى البيت، وأنه صلى أول صلاة صلاها إلى الكعبة العصر، وصلى معه قوم، فخرج رجل ممن كان معه فمر على أهل مسجد وهم راكعون فقال: أشهد بالله لقد صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل مكة. فداروا كما هم قبل البيت. وكان الذي مات على القبلة قبل أن تحول رجال قتلوا، لم ندر ما نقول فيهم، فأنزل الله " وما كان الله ليضيع إيمانكم إن الله بالناس لرءوف رحيم"

(جلد ۲، ص: ۳۷۳، ط: دار المعرفۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408100949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں