بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں سر دھونے میں نقصان کا اندیشہ ہو تو کیا حکم ہے؟ طحطاوی اور شامی کی ایک عبارت کی وضاحت


سوال

 در مختاراورحاشية الطحطاوي على مراقى الفلاحمیں ہے:

"ولو ضرّها غسل رأسها تركته ولاتمنع نفسها عن زوجها".

یہاں ضرر سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ عام ضرر شدید ہے جو وضو غسل میں  عذر سمجھا جاتا ہے یا اس سے خفیف جیسے زکام سردی وغیرہ بھی ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ  بال سکھانے میں بہت دیر لگتی ہے اور یہ لڑکیوں کے لیے سخت محسوس ہوتا ہے، زکام وغیرہ کا اندیشہ تو ہے ہی!

جواب

سوال میں ذکر کردہ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ  اگر کسی بیماری کی وجہ سے سر پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو،  مثلاً سر پر زخم ہے یا عورت کو سر کے درد کا مرض ہے  تو اس کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ غسل واجب ہونے کے ڈر سے اپنے شوہر کو قریب آنے سے منع نہ کرے، بلکہ شوہر کو قریب آنے دے، پھر اگر غسل واجب ہوجائے اور سر پر پانی ڈالنا نقصان دہ ہو تو مسح کرلے  اور باقی جسم کو دھولے، اور اگر مسح بھی نقصان کرتا ہو تو اس کو بھی چھوڑدے۔

اس سے معمولی قابلِ برداشت تکلیف یا نزلہ زکام کا اندیشہ مراد نہیں ہے، اس صورت میں سر کا دھونا معاف نہیں ہوگا، بلکہ بال سکھانے کے بہت سے طریقہ ہیں ان سے مدد لی جاسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 153):

"(وكفى، بل أصل ضفيرتها) أي شعر المرأة المضفور للحرج، أما المنقوض فيفرض غسل كله اتفاقًا ولو لم يبتل أصلها يجب نقضها مطلقًا هو الصحيح، ولو ضرها غسل رأسها تركته، وقيل: تمسحه ولاتمنع نفسها عن زوجها وسيجيء في التيمم.

(قوله: ولاتمنع نفسها) أي خوفًا من وجوب الغسل عليها إذا وطئها؛ لأنه حقه، ولها مندوحة عن غسل رأسها. (قوله: وسيجيء في التيمم) أي في آخره".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 260):

"(من به وجع رأس لايستطيع معه مسحه) محدثًا ولا غسله جنبًا ففي الفيض عن غريب الرواية: يتيمم، وأفتى قارئ الهداية أنه (يسقط) عنه (فرض مسحه) ولو عليه جبيرة، ففي مسحها قولان، وكذا يسقط غسله فيمسحه ولو على جبيرة إن لم يضره، وإلا سقط أصلًا وجعل عادمًا لذلك العضو حكمًا كما في المعدوم حقيقةً".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں