بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تحریری طلاق نامہ کا حکم


سوال

1۔  میرے ایک عزیز کی اپنی بیوی کے ساتھ لڑائی جون 2020 کے آخری ہفتے میں ہوئی۔اس کی بیوی لڑائی کر کے بچوں کو ساتھ لے کر اپنے میکے چلی گئی۔ یہ صاحب ہمارے پاس جولائی کے پہلے ہفتے میں آئے ساتھ کچھ دوسرے مہمان بھی تھے۔اس نے اپنے بھتیجے سے موبائل کے ذریعہ میسج کروایا کہ چاچو تمہیں طلاق دے رہے ہیں۔ اس کی بیوی نےاپنے بھائی سے فون کروایا کہ یہ کون ہوتا ہے ہمیں اس طرح کے میسج کرنے والا۔ اس صاحب نے اسے کہا اس نے میسیج نہیں کیا میں نے اس سے میسیج کروایا ہے۔ 

2۔ اس کے بعد یہ صاحب اپنے گاؤں ضلع کچہری وکیل کے پاس گئے۔ طلاق اول لکھوائی کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں۔ لیکن بذریعہ ڈاک پوسٹ نہیں کی۔ (جس کا ڈرافٹ میرے پاس محفوظ ہے)۔

3۔ اس نے اپنی سالی سے کچھ روپے لینے کے لیے فون کیا جو کہ اس کی سالی نے اس سے ادھار لیے ہوئے تھے کہ میرے روپے واپس کرو ۔ (میرا ہن  تیری بہن نال کوئی تعلق نہیں  اے میرے  ولوں ہن فارغ اے) اب میرا تیری بہن کےساتھ کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس نے جواب دیا کہ پیسے آپ کو مل جائیں گے۔آئندہ مجھے فون نہیں کرنا۔ جب میری بہن کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں رہا  تو میرے ساتھ بھی تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے۔

4۔ یہی الفاظ اس صاحب نے اپنے سالے کو کئی بار کہے جو  3 نمبر پر تحریر کیے ہیں (میرا ہن تیری بہن نال کوئی تعلق نہیں اے میرے ولوں ہن فارغ اے)۔ جو ان کی صلح کروانے کے  لیے ان کو بار بار فون کرتا تھا۔

5۔ اس قسم کے الفاظ متعدد بار  اپنی سالی اور سالےکو  ایس ایم ایس   کیے۔اورکئی لوگوں سے ذکر بھی  کیے۔ 

اب سوال یہ ہے کہ ان صاحب کی بیوی کو طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ طلاق کی نوعیت کیا ہے۔ اب انہیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں   بھتیجے  نے  چچا کے  کہنے پر  یہ میسج  کیا ہے (جس سے بیوی کے بھائی کی طرف سے فون آنے پر شوہر نے اسے تسلیم بھی کیا ہے)   کہ: " چاچو تمہیں طلاق دے رہےہیں " تو  اس سے ایک طلاق واقع ہوگئی ہے۔ اور اس کے بعد مذکورہ شخص کا از خود  کچہری جا کر  وکیل سے یہ تحریر لکھوانا کہ: "میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں" اگرچہ ڈاک پوسٹ نہیں کی، اس سے ایک اور طلاق رجعی واقع ہو چکی ہےجو کہ   مجموعی طور پر دو طلاقیں رجعی واقع ہو چکی ہیں؛  اس لیے  کہ میسج اور بعد کی تحریر کے الفاظ مختلف ہیں جیسا کہ سوال میں مذکورہ ہے۔   دورانِ عدت رجوع کا حق حاصل ہے، رجوع کر لینے سے نکاح باقی رہے گا۔ اور آئندہ کے لیے صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔  اور اس کے بعد الفاظ کہ "میرا ہن تیری بہن نال کوئی تعلق نہیں اے میرے ولوں ہن فارغ اے (اب میرا تیری بہن کےساتھ کوئی تعلق نہیں رہا)"  یہ الفاظ  شوہر کی  نیت پر موقوف ہیں، اگر یہ الفاظ  طلاق کی نیت یا مذاکرہ طلاق میں  کہے ہیں تو ان الفاظ سے ایک تیسری طلاق بائن واقع ہو کر بیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی، رجوع اور تجدید نکاح بھی جائز نہیں ہو گا، عورت عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ اور اگر ان الفاظ سے طلاق کی نیت یا مذاکرہ طلاق میں نہیں کہے تو پھر ان سے مزید کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

رجل استكتب من رجل آخر إلى امرأته كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه وطواه وختم وكتب في عنوانه وبعث به إلى امرأته فأتاها الكتاب وأقر الزوج أنه كتابه فإن الطلاق يقع عليها.

 (کتاب الطلاق، الباب الثاني في إيقاع الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج: 1/ صفحہ: 379، ط: دار الفکر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں