بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحريفِ قرآن كا عقيده موجبِ كفر ہے


سوال

1۔شیعوں کا کہنا ہے کہ قرآن کریم کو اکٹھاکرنے کے دوران حضرت شیخین رضی اللہ عنہمانے اس میں تحریف کی اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بکری کچھ حصہ کھا گئی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل کے بارے میں آیات تھیں ،  وہ حذف کی گئیں ۔کیا قرآن کریم کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھنا درست ہے ؟کیا یہ حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے  ایسا کیاتھا ؟

2۔اہل ِ سنت کا کلمہ"لا إلٰه إلا اللّٰه محمّد رسول اللّٰه"  پورا لکھا ہو اقرآن میں موجود نہیں ہے ؛ اس لیے  "لا إلٰه إلا اللّٰه محمّد رسول اللّٰه،علي وصي اللّٰه، وصي رسول اللّٰه و خلیفته بلافصل "پڑھنے  میں کوئی حرج نہیں  ہے ۔

کیا يه بات درست هے ؟

جواب

1۔  صورت ِمسئولہ میں تحریفِ قرآن کا عقیدہ موجبِ کفر ہے اور اللہ نے قرآن مجید کی حفاظت حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل ِایمان کے منور سینوں میں محفوظ کرکے فرمائی ہے ،   جہاں  نہ کوئی بکری پہنچ سکتی ہے اور  نہ   اس کے علاوہ دوسری  کوئی چیز ،   اللہ  تعالی نے حفاظت ِقرآن  کا ذمہ خود لیا ہے  ۔

قرآن مجید میں ہے :

{إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذّكرَ وَإِنّا لَه لَحفِظُون}.

(سورة الحجر ، الآية :9)

   2۔      واضح رہے کہ اسلام اور ایمان کا دار ومدار  کلمہ "لا إلٰه إلا اللّٰه محمّد رسول اللّٰه"پر ہے ؛  لہذا  جو شخص  دل میں  اس کلمہ کی تصدیق  رکھے  اور زبان  سے  اس کلمہ کا اقرار   کرے ،  وہ مسلمان  کہلائے  گا۔  اس کلمہ کے دو حصے ہیں،   پہلا حصہ  "لا إلٰه إلا اللّٰه" ہے ،    اس میں توحیدِ  الہی کا اقرار ہے ،دوسرا حصہ  "محمّد رسول اللّٰه"ہے،  اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم  کی رسالت وپیغمبری  کا اقرار ہے،  انہی دوباتوں کا اقرار کرنا  اور دل میں یقین  رکھنا  ایمان  کے لیے  اولین شرط ہے ،   کوئی  بھی شخص   ان دونوں  حصوں میں سے  کسی  ایک حصہ   کا  بھی منکر  ہو،  وہ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔اور اس کلمہ  کے دونوں حصے جدا جدا  طور پر قرآن مجید میں موجود ہیں، چنانچہ   سورۃ محمد  میں ہے  "فاعلم  أنه  لا إلٰه ٳلا اللّٰه"  اور سورۃ الفتح میں ہے   محمد رسول اللّٰه  والذین معه أشداء على الکفار .

بے شمار احادیث مبارکہ میں اس کلمہ کا ثبوت  ہے،حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب کسی کو  دائرہ اسلام  میں داخل فرماتے  تو سب سے پہلے  اس سے   صرف دو چیزوں(توحید ورسالت )  کی گواہی  لیتے  اور یہ دونوں کلمہ میں داخل ہیں  اور ان کے علاوہ  کلمہ میں  کبھی بھی  کسی   سے  کسی  کی  امامت  یاخلافت  یاولایت  کا اقرار  نہ کرواتے  ،مثال کے طور پر چند احادیث پیش  کی جاتی   ہیں ۔

 حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے  کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے  ہوئے سنا  جو شخص   "لا إلٰه إلا اللّٰه محمّد رسول اللّٰه" کی گواہی دے  اللہ تعالی اس پر جہنم کی آگ حرام  فرمادیتے ہیں  ۔

صحیح مسلم میں ہے :

   عن عبادة بن الصامت، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «من شهد أن لا إله إلا الله، وأن محمدا رسول الله، حرم الله عليه النار».

(باب من لقي الله بالإيمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة وحرم على النار،1/57،ط: دار إحياء التراث العربي)

اہلِ  سنت كے ساتھ شیعہ بھی  ان دونوں حصوں پر متفق ہیں،  اختلاف صرف کلمہ کے اگلے تین حصوں میں ہے   ۔

 شیعوں کا کلمہ :لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ ، علی ولی اللہ و وصی رسول اللہ  و خلیفتہ بلا فصل

واضح رہے کہ شیعوں کے   كلمہ کے کل پانچ حصے  ہیں اور وہ اسلامی کلمہ کے بعد مزید  تین حصوں  کا  اس میں اضافہ ہے،  اضافہ شدہ  تین حصے درجہ ذیل ہے :

(۱)علی ولی اللہ (۲)وصی  رسول اللہ (۳)خلیفتہ  بلا  فصل 

كلمہ میں شیعوں کے اضافہ  شدہ  حصے قرآن مجید  میں کہیں  موجود نہیں  ہیں  اور نہ  حضور اقدس  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تمام حیات  مبارکہ  میں شیعوں  کا کلمہ پڑھا  گیا ۔

خود  حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی ساری زندگی  میں اس کلمہ  کو تلاش کر لیں،  مگر حدیث کی  کسی معتبر  کتاب  میں  کسی صحیح  سند  کے ساتھ  کوئی شخص   ثابت نہیں کرسکتا ہے  کہ  حضرت علی کرم اللہ وجہہ  یا کسی  بھی دوسرے امام  نے یہ کلمہ  کسی  کومسلمان   کرتے  وقت  یاکسی  بھی دوسرے امام  نے  یہ  کلمہ  کسی کو مسلمان  کرتے وقت  یاکسی  اور وقت میں  پڑھا  یاپڑھایا  ہو۔ 

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144304100431

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں