بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تحریری طلاق نہ پہنچنے کی صورت میں دوبارہ بھیجنے کا حکم


سوال

میں سعودیہ میں رہتا ہوں ، اور میری بِیوِی پاکستان میں رہتی ہے، میں نے 12 مارچ کو ان کو طلاق کا پہلا نوٹس کوریئر کیا ، کچھ دنوں بعد میں نے چیک کیا کہ وہ پاکستان نہیں وصول ہوا ،میں نے کوریئر والو ں کو کمپلین کی انہوں نے چیک کر نے کے بعد کہا ہمیں نہیں سمجھ آ رہی کیا مسئلہ ہے آپ کینسل کروا دو اور کسی اورکے ذریعے دوبارہ ارسال کردو، میں نے دوبارہ وہی پیپر سائن کر کے کسی اور کوریئر سے ارسال کر دیا ، اب 12 اَپْرَیْل اور 14 اَپْرَیْل کو ان کو دونوں پیپر مل گئے ، آپ سے یہ مسئلہ پوچھنا تھا کہ یہ ایک طلاق ہو گی یا دو؟ اور جو میں نے نوٹس سائن کر کے ارسال کیا تھا، اس میں یہ لکھا تھا کہ یہ طلاقِ اول ہے، اس کے ساتھ شوہر اور بیوی کے تمام تعلقات کو ہمیشہ کے لیے منقطع کر کے آپ کے لیے میں نوٹس بھی اٹیچ کر رہا ہو ں ، اب اگر مجھے دوبارہ رابطہ کرنا ہو تو مجھے نکاح کرنا ہو گا یا ایسے ہی رجوع کر سکتا  ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب اپنی بیوی کو پہلی مرتبہ ان الفاظ سے طلاق کا نوٹس بھیجا کہ" یہ طلاقِ اول ہے، اس کے ساتھ شوہر اور بیوی کے تمام تعلقات کو ہمیشہ کے لئے منقطع کر کے آپ کے لئے نوٹس بھی اٹیج کر رہا ہوں" تو مذکورہ الفاظ کی وجہ سے سائل کی بیوی پر اسی وقت سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو کر نکاح ٹوٹ چکا تھا،لیکن چونکہ وہ نوٹس موصول نہیں ہوا ، اس لئے اس نوٹس کو دوسرے کوریئر کے ذریعے  دوبارہ بھیجا تو اس سے بیوی پرالگ سے دوسری طلاق واقع نہیں ہوئی ،لہذا اب اگر  سائل اپنا گھرآ باد کرنا چاہتا ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ سائل بیوی کی رضامندی سے   دو گواہوں کی موجودگی میں  نئے مہر کے ساتھ  ایجاب و قبول کر کے تجدیدِ نکاح کرے ،تجدیدِ نکاح کی صورت میں  آئندہ کے لیے سائل کے پاس بقیہ دو طلاق کا حق ہو گا،اور اگر بیوی  اپنے شوہر( یعنی  سائل ) سے علیحدہ ہونے کے وقت سے اپنی عدت( پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو،اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک ) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو بھی کر سکتی ہے، سائل اسے تجدیدِ نکاح پر مجبور نہیں کر سکتا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"ففي البدائع ان الصريح نوعان : صريح رجعي ، وصريح بائن.....واما الثاني فبخلافه ، وهو ان يكون بحروف الابانة و بحروف الطلاق،....او موصوفا بصفة تنبئ عن البينونة او تدل عليها من غير حرف العطف....الخ."

( كتاب الطلاق، باب الصريح ، ج:3، ص:250، ط:سعيد )

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ولو قال: لم يبق بيني وبينك شيء، ونوى به الطلاق لايقع. وفي الفتاوى: لم يبق بيني وبينك عمل ونوى يقع، كذا في العتابية".

( کتاب الطلاق، ج:1، ص:376، ط:رشیدیه )

البحرا الرائق میں ہے:

"وصرح في البزازية بأن له ‌في ‌الديانة ‌إمساكها إذا قال أردت به الخبر عن الماضي كذبا، وإن لم يرد به الخبر عن الماضي أو أراد به الكذب أو الهزل وقع قضاء وديانة".

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:264، ط:دار الکتاب)

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولايجري اللعان بينهما ولايجري التوارث ولايحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية."

(3/187، فصل فی حکم الطلاق البائن ، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں