اگر تحقیق کے بعد صحیح حق دار نہ مل سکیں تو پھر کس کو زکات دی جائے؟
زکاۃ دینے والے کا غالب گمان یہ ہو کہ جسے زکاۃ دی جارہی ہے وہ مستحق ہے اور اس کا دل مطمئن ہو تو اس کو زکاۃ دینا جائز ہے، خواہ یہ اطمینان مستحق کی ظاہری حالت دیکھ کر ہو رہا ہو یا مستحق کے خود بتانے سے یا اس کے زکاۃ کا سوال کرنے سے غالب گمان حاصل ہوجائے، مزید تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر کسی دینی ادارے میں مستحق طلبہ پڑھتے ہیں یا کوئی ادارہ زکاۃ کی رقم یا سامان کو مستحق لوگوں کو مالک بناکر دینے کا انتظام کرتا ہے تو ان کو زکاۃ دی جاسکتی ہے، البتہ ادارے کی ضروریات، تعمیرات، ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں زکاۃ کی رقم نہیں لگائی جاسکتی، اس سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں ان کو مالی امداد کے ذریعے مضبوط کرکے باقی رکھنا دین کی بقاہے، مدارس کے غریب طلبہ کو زکاۃ دینے میں شریعتِ مطہرہ کی ترویج واشاعت میں تعاون ہے ، لہذا مدارس کے غریب ،مستحقِ زکاۃ طلبہ کو زکاۃ دینا نہ صرف جائز، بلکہ مستحسن اور دوہرے اجر کا باعث ہے۔ باقی مدارس کے نمائندے مدرسہ کے طلبہ کے وکیل ہوتےہیں، اور زکاۃ کی رقم مستحق طلبہ تک پہنچانے میں امین بھی ہوتے ہیں، ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ زکاۃ کو مستحقِ زکاۃ طلبہ کو مالک بنا کردیں، ا ن کو مالک بناکر دینے سے زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا ہوجاتی ہے۔
اور مدارس میں زکاۃ کی رقم صرف مستحقِ زکاۃ طلبہ پر صرف کی جاتی ہے، طلبہ کے داخلے کے وقت معلوم کرلیا جاتاہے کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں، جو طالب علم مستحقِ زکاۃ ہو اسے زکاۃ کے فنڈ سے امداد دی جاتی ہے، جو طالبِ علم زکاۃ کا مستحق نہ ہو اسے وظیفہ وغیرہ جاری نہیں کیا جاتاہے؛ لہذا مدرسہ میں جو رقم زکاۃ کی مد میں جمع کرائی جاتی ہے اس سے زکاۃ دینے والوں کی زکاۃ ادا ہوجاتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
''ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعاً، إلا إذا وكله الفقراء ، (قوله: إذا وكله الفقراء)؛ لأنه كلما قبض شيئاً ملكوه وصار خالطاً مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع."
(2/ 269، کتاب الزکاۃ، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144207201562
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن