میرا سوال اسلامی قانون کے تحقیق کے متعلق ہے،یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مغرب پہلے ہی اسلامی قانون پر وسیع تحقیق کرچکاہے،عرض ہے کہ ان کی تحقیق کا مقصد فقہ کی کلاسکی کتابوں میں پہلے سے حل شدہ معاملات کو دوبارہ دریافت کرنا اور دوبارہ لکھناتھا، میرا سوال یہ ہے کہ وہ کون سے موضوعات ہیں جن پر ایک مسلمان طالبِ علم جدید حالات کو دیکھتے ہوئے تحقیق کرسکتا ہے؟میرا اگلا سوال یہ ہے کہ امام محمد ؒکی السیر الکبیر کی شرح كون سی ہے؟
1۔اسلامی قانون پر اہلِ اسلام بہت پہلے ہی بہتر انداز میں کام کرچکے ہیں،متقدمین ومتاخرین ان قوانین کو مرتب کرکے متون،شروح،حواشی ،نظم وغیرہ کی صورت میں پیش کرچکے ہیں، پھر ہر زمانے میں ان ہی مسائل کو اسی دور میں پیش آمدہ مسائل پر منطبق کرکے اسے پیش کیا ہے،سائل اگر کسی اسلامی/ فقہی قانون پر تحقیق کرنا چاہتا ہے اور اس میں اہلیت بھی ہے تو تحقیق کرسکتا ہے،البتہ کسی بھی موضوع سے متعلق تحقیق کے لیے مندرجہ ذیل بنیادی باتوں کو مد نظر رکھنا چاہیے:
(1) تحقیق میں سب سے اہم منزل موضوع کا انتخاب کا ہوتا ہے،محقق ایسے موضوع کا انتخاب کرے جس میں محقق کی دلچسپی ہو ، اس موضوع سے محقق کا مزاج ملتا ہے اور اس کا شوق بھی ہو۔
(2)موضوع ایسا منتخب کیا جائے جس پر تحقیق بھی ہوسکتی ہو۔
(3)موضوع ایسا ہو جو محقق کا اختصاص ہواور اسے اس میں مہارت بھی حاصل ہو، اور محقق اس موضوع پر تحقیق کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
(4) موضوع کے انتخاب کے لیےاس میدان میں ماہر شخص سے مشاورت بھی کی جائے، جس سے وقتاً فوقتاً مشورہ کے ساتھ ساتھ علمی راہ نمائی بھی حاصل کی جائے۔
(5)تحقیق کے نتیجے میں دین کے بنیادی عقائد یا اصول سے انحراف یا جمہور کی رائے سے خروج لازم نہ آئےِ
ان بنیادی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے سائل کو چاہیے کہ اپنے ذوق کے مطابق کوئی موضوع منتخب کرکے کسی ماہر متدین شخص سے مشورہ کرکے تحقیق کے کام کا آغاز کرے۔
2۔امام محمدبن حسن الشیبانی رحمہ اللہ کی کتاب "السیر الکبیر" کی معتمد شرح "شرح السیر الکبیر" ہے ،جو کہ امام شمس الائمۃ سرخسی رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔
"کشف الظنون عن أسامي الكتب والفنون "ميں ہے:
"السير: الكبير، والصغيرفي الفقه.للإمام: محمد بن الحسن الشيباني، صاحب أبي حنيفة.وهو: آخر مصنفاته.صنفه: بعد انصرافه من العراق، ولهذا لم يروه عنه: أبو حفص.وشرح (الكبير) :شمس الأئمة: عبد العزيز بن أحمد الحلواني، (شمس الأئمة: محمد بن أحمد السرخسي)."
(باب السين المهملة،ج:2،ص:1013،ط:دار احياء التراث العربي)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144406100468
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن