بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحلیل کے لیے نکاح کا حکم


سوال

اگر کوئی عورت دوسرے مرد کے ساتھ اپنے دل میں یہ بات رکھ کر نکاح کر لے کہ وہ سابق شوہر کے پاس جانے کے لیے طلاق لے لے گی تو کیا یہ شریعت میں درست ہے؟

اگر بیوی کا رشتہ دار یا کوئی اور شخص بغیر کسی سابقہ ​​شوہر کی مداخلت کے دوسرے مرد کے ساتھ نکاح کے بعد تمام شرائط پوری ہو جائے تو کیا وہ یا عورت طلاق لے سکتی ہے؟

اس  کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے اور پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے اس کا نکاح  کسی دوسرے شخص سے اس شرط پر کرائے کہ وہ نکاح کے بعد اسے طلاق دے گا، ایسا کرنا مکروہ تحریمی  ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسا کرنے والے اور جو شخص ایسا کروا رہا ہے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔

البتہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے اور وہ کسی دوسری جگہ طلاق دینے کی شرط کے بغیر نکاح کرے ، نکاح کے بعد دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے اور اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے اتفاقی طور پر طلاق دےدے تو وہ بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی۔

لہذا مذکورہ صورت میں اگر کوئی عورت دوسرے مرد کے ساتھ اپنے دل میں یہ بات رکھ کر نکاح کر لے کہ وہ سابق شوہر کے پاس جانے کے لیے طلاق لے لے گی، اور عقدِ نکاح میں اس قسم کی کوئی شرط نہ لگائی جائے، تو یہ نکاح شرعاً درست ہے۔ نیز اگر مذکورہ عورت اس طور پر نکاح کرنے کے بعد اپنے پہلے شوہر کے پاس جانے کے لیے دوسرے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے، اور اس کے علاوہ طلاق لینے کی کوئی اور وجہ نہ ہو، تو یہ صورت درست نہیں ہے ، نبی کریم ﷺ  نے شرعی وجہ کے بغیر طلاق  کا مطالبہ کرنے والی عورت کو منافق قرار دیا ہے، اور اگر سابقہ شوہر سے پیدا ہونے والے بچوں کی وجہ سے ایسا کرے تو گناہ نہیں ہو گا۔

صحیح طریقہ وہی ہے جو تمہید میں بیان کیا گیا ہے۔ 

سنن الترمذي" میں ہے:

" عن هزيل بن شرحبيل ، عن عبد الله بن مسعود قال: «‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم ‌المحل» ‌والمحلل ‌له.هذا حديث حسن صحيح".

(باب ما جاء في المحل والمحلل له،114/2،ط : دار الغرب الإسلامي)

شرح السنة للبغوي"  میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود، قال: «‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم ‌المحل، ‌والمحلل ‌له».وأراد بالمحل المحلل، وأراد به أن يطلق الرجل امرأته ثلاثا، فنكحت زوجا آخر حتى يصيبها، فتحل للأول، ثم يفارقها، فهذا منهي عنه..فإن شرط في العقد مفارقتها، فالنكاح باطل عند الأكثرين، كنكاح المتعة، وسمي محللا لقصده إليه، وإن كان لا يحصل التحليل به، وقيل: يصح النكاح، ويفسد الشرط، ولها صداق مثلها، فأما إذا لم يكن ذلك في العقد شرطا، وكان نية وعقيدة، فهو مكروه غير أن النكاح صحيح، وإن أصابها، ثم طلقها، وانقضت عدتها، حلت للأول عند أكثر أهل العلم".

(‌‌باب نكاح المحلل،101/9،ط : المكتب الإسلامي)

الكوكب الدري على جامع الترمذي" میں ہے:

"قال ابن بطال: اختلفوا في عقد نكاح المحلل، فقال مالك لا يحلها إلا بنكاح رغبة فإن قصد التحليل لم يحلها سواء علم الزوجان بذلك أم لا ويفسخ قبل الدخول وبعده، وهو قول الأوزاعي وأحمد، وقال أبو حنيفة وأصحابه والشافعي، النكاح جائز وله أن يقيم على نكاحه أولاً، وقال عروة والشعبي وغيرهما: لا بأس أن يتزوجها ليحلها إذا لم يعلم بذلك الزوجان وهو مأجور بذلك وذهب الشافعي وأبو ثور إلى أن النكاح الذي يفسد هو الذي يعقد عليه في نفس عقد النكاح أنه إنما يتزوجها ليحلها ثم يطلقها ومن لم يشترط ذلك فهو عقد صحيح، وروى عن أبي حنيفة مثله وروى عنه أنه إذا نوى الثاني تحليلها للأول لم يحل له ذلك، وهو قول أبي يوسف ومحمد وروى ‌عن ‌أبي ‌حنيفة ‌أنه ‌إن ‌شرط ‌في ‌نفس ‌العقد فالنكاح صحيح والشرط باطل فله أن يمسكها، وإن طلقها حلت للأول، كذا في العيني مختصرًا، قلت: وعلم من ذلك أن ما حكى الترمذي من موافقة الشافعي أحمد ليس بصحيح".

[باب في المحل والمحلل له،231/2،ط : مطبعة ندوة العلماء الهند]

بذل المجهود في حل سنن أبي داود "میں ہے:

"قال ابن حزم: ليس الحديث على عمومه في كل محلل، إذ لو كان كذلك لدخل فيه كل واهب وبائع ومزوج، فصح أنه أراد به بعض المحللين، وهو من أحل حراما لغيره بلا حجة؛ فتعين أن يكون ذلك فيمن شرط ذلك؛ لأنهم لم يختلفوا في أن الزوج إذا لم ينو تحليلها للأول ونوت هي، أنها لا تدخل في اللعن، فدل على أن المعتبر الشرط، انتهى.

ومن المجوزين للتحليل بلا شرط أبو ثور وبعض الحنفية والمؤيد بالله والهادوية، وحملوا أحاديث التحريم على ما إذا وقع الشرط أنه نكاح تحليل، قالوا: وقد روى عبد الرزاق أن امرأة أرسلت إلى رجل فزوجته نفسها، ليحلها لزوجها، فأمره عمر بن الخطاب أن يقيم معها ولا يطلقها، وأوعده".

(باب: في التحليل،643/7،ط : مركز الشيخ)

السنن الكبرى - النسائي" میں ہے:

" عن أيوب، عن الحسن، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «‌المنتزعات، ‌والمختلعات ‌هن ‌المنافقات»".

(‌‌الخلع،٢٧٦/٥،ط : مؤسسة الرسالة)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح"  میں ہے:

"(عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال المنتزعات) : بكسر الزاي أي التي يطلبن الخلع والطلاق عن أزواجهن من غير بأس (هن المنافقات) : أي: العاصيات باطنا، والمطيعات ظاهرا. قال الطيبي رحمه الله: مبالغة في الزجر (رواه النسائي) : وقال ابن الهمام: روى الترمذي قوله صلى الله عليه وسلم: «المختلعات هن المنافقات» ، اهـ. وروايته عن ثوبان، ورواه أبو نعيم في الحلية عن ابن مسعود، ولفظه: «المختلعات والمتبرجات هن المنافقات»".

‌‌[باب الخلع والطلاق،الفصل الثالث،٢١٤٤/٥،ط : دار الفكر]

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144506101226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں