بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحکیم کے معاملہ میں حکم سے رجوع کرنے کی شرعی حیثیت


سوال

 میرے والد اور میرے چچادونوں بھائیوں نے مل کرکچھ اراضی خریدی اور تقسیم کے بعد حدود کے تعیین پر اختلاف شروع ہوا، یہ اختلاف جاری تھا کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہوگیا، اس کے بعد یہ اختلاف ہمارے اور ہمارے چچا کے در میان جاری رہا، یہاں تک کہ ایک جرگہ کو ہم نے مشترکہ طور پر حکم بنایا، جر گہ نے یہ بات مناسب سمجھی کہ ہمارے چچا کو قرآن کی قسم دی جائے ،تاکہ حدود متعین کر کے معاملہ کو ختم کیا جائے،جب ہمارے چچا نے مختلف مقامات سے قسم اٹھا کر حدود کی تعیین شروع کر دی، تو اس دوران انہوں نے ایک موہو بہ زمین (جو وہ مرحوم کو ہبہ کر چکے تھے) پر بھی قسم اٹھانے کی کوشش کی ، اس پر ہمارے در میان شور شراباہوا ،حتی کہ جرگہ کے ساتھ بھی تلخ کلامی ہوئی اور ہم نے جرگہ کے حکم ہونے سے رجوع کا اعلان کر دیا؛ یوں معاملہ در میان میں رہ گیا اوربقیہ زمین کی حدودکا تعین نہ ہو سکا۔

اب پوچھنا یہ ہےکہ کیا از روئے شرع جرگہ کایہ فیصلہ نافذ ہو چکا ہے یا نہیں؟ جبکہ درمیان میں ہم نے جر گہ سے حکم بننے کا اختیار واپس لے لیا تھا،اور جر گہ نے مدعی اور مد ی علیہ کے تعین کے بغیر صرف تصفیہ کے طور پر ایک فریق کو قسم دینے کی کو شش کی تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں  فریقین نے جس جرگہ کو اراضی کی حدودکے تعین سے متعلق بطور حکم فیصلہ کا اختیار دیااور پھر فیصلہ سے قبل ہی سائل اوراس کے فریق نےبعض وجوہات کی بنا پر اس جرگہ کے حکم ہونے سے رجوع کرلیا ہے، تو شرعاً اس جرگہ کا فیصلہ نافذ نہیں ہوگا،کیونکہ حکم مقرر کرکے فیصلہ کروانے والے دونوں فریقین میں سے ہر ایک کو حکم کے فیصلہ سےقبل رجوع کرنے کا حق حاصل رہتا ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولكل واحد من الحكمين ‌أن ‌يرجع ‌قبل ‌حكمه) ؛ لأنه تقلد من جهتهما فكان لكل منهما عزله وهو من الأمور الجائزة فينفرد أحدهما بنقضه كالمضاربة والشركة والوكالة."

(كتاب القضاء، باب التحكيم، ج:7، ص:26، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال:دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ کسی کو حکم بنانے کے بعد حکم کے فیصلہ دینے سے قبل کسی فریق کے اس حکم کو منسوخ اور رد کردینے کی وجہ سے وہ شرعاً رد یا منسوخ ہوجاتا ہے یا نہیں؟ جب کہ حکم پر کچھ بے اعتمادی ہوجائے یعنی معقول وجہ سے حکم کے حکم ہونے کو منسوخ کیا جائے۔

جواب: اعتماد رہے یا نہ رہے، دونوں صورتوں میں جو فریق بھی چاہے اس تحکیم کو فسخ کرسکتا ہے،اور یہ فسخ کرنے کا حق فیصلہ سنانے سے پہلے حاصل ہے۔‘‘

(کتاب الدعوی والتحکیم،باب التحکیم،ج:16، ص:467، ط:ادارہ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں