بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد کے لیے سونا لازم نہیں


سوال

کیا تہجدکی  نماز کے لیے رات کو نیند کرنا لازمی ہے ؟میں نے  اکثر ویڈیوزمیں سنا ہے کہ اگر کوئی شخص جاگ رہا ہو تہجد کی نماز کے وقت تک  تو وہ بغیر نیند کیے تہجد کی نماز پڑھ سکتا ہے ،کیا ایسا ممکن ہے؟

جواب

تہجد کے لیے سونا لازم نہیں ہے ،عشاء کے بعد بغیر سوئے بھی  اگر کوئی شخص نوافل ادا کرے تو ان شاء اللہ اسے تہجد کی نماز کا ثواب حاصل ہوگا ۔البتہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کاعام معمول  آخررات میں بیدارہوکرتہجد کی نماز پڑھنے کا تھا، اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔جیساکہ شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:

’’صلوۃِ تہجد کاوقت عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے صحاح میں روایت موجودہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب میں بھی اوروسطِ شب میں بھی اورآخرِشب میں بھی تہجدپڑھی ہے۔مگرآخری ایام میں اورزیادہ تراخیرِ شب میں پڑھناوارد ہے،جس قدربھی رات کاحصہ متاخرہوتاجاتاہے برکات اوررحمتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں،اورسد سِ آخرمیں سب حصوں سے زیادہ برکات ہوتی ہیں۔تہجد ''ترکِ ہجود '' یعنی ترک نوم سے عبارت ہے،اس لیے اوقاتِ نوم بعد عشاء سب کے سب وقت تہجدہی ہیں۔‘‘

نیزمفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ’’معارف القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:

''لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی ......اسی رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازِتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت﴿ وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ ﴾کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایاتِ حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

''حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا''۔

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعد النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن عموماً  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کاتعامل یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی، اور بغیر سوئے جو نوافل ادا کیے جائیں ان پر تہجد کے بجائے "قیام اللیل " کا اطلاق زیادہ مناسب معلوم ہوتاہے۔جیساکہ شامی کی عبارت میں ہے:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 24):

"قال في البحر: فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعاً: «أفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل». وروى الطبراني مرفوعاً: «لا بد من صلاة الليل ولو حلب شاة، وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل». وهذا يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. اهـ.
قلت: قد صرح بذلك في الحلية، ثم قال فيها بعد كلام: ثم غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد. وقد ذكر القاضي حسين من الشافعية أنه في الاصطلاح التطوع بعد النوم، وأيد بما في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو - رضي الله عنه - قال: «يحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة»، غير أن في سنده ابن لهيعة وفيه مقال، لكن الظاهر رجحان حديث الطبراني الأول؛ لأنه تشريع قولي من الشارع صلى الله عليه وسلم بخلاف هذا، وبه ينتفي ما عن أحمد من قوله: قيام الليل من المغرب إلى طلوع الفجر اهـ ملخصاً.
أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لايحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسراً للأول، وهو أولى من إثبات التعارض والترجيح لأن فيه ترك العمل بأحدهما ولأنه يكون جارياً على الاصطلاح ولأنه المفهوم من إطلاق الآيات والأحاديث ولأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل: تأثم أي تحفظ عن الإثم؛ نعم صلاة الليل وقيام الليل أعم من التهجد، وبه يجاب عما أورد على قول الإمام أحمد هذا ما ظهر لي، والله أعلم". 

یہ بھی یاد رہے کہ شرعی مسائل کے حل کے لیے اپنے قریبی کسی مستند اور متبع سنت عالم سے رجوع کیاکریں ، ویڈیوز دیکھنا شرعاً جائز نہیں ، نیز ویڈیوز کے ذریعہ مسائل معلوم کرنا یا اخذ کرنا احتیاط کے سخت خلاف ہے۔شرعی اعتبار سے شدید ضرورت کے بغیر جاندار کی تصویر بنانا (خواہ ڈیجیٹل ہو) حرام اور کبیرہ  گناہ ہے،  لہذا  جاندار کی تصاویر والی  ویڈیو  بنانا، دیکھنا، اور موبائل میں محفوظ رکھنا  جائز نہیں،اور   یہ ناجائز عمل خواہ تبلیغ کے لیے ہو یا کسی اور مقصد  کے حصول کے لیے ہو ، بہرصورت ناجائز ہے۔ علماءِ کرام سے استفادہ کے لیے براہِ راست ان کی مجالس میں شرکت کرکے ان کے بیان سن لیے جائیں، یا ان کے آڈیو بیان سن لیے جائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں