تہجد کی نماز کے لیے وتر کو مؤخرکرکے پڑھنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ جس شخص کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ وہ اخیر شب میں بیدار ہوجائے گا اس کے لیے تہجد کے بعد وتر پڑھنا افضل ہے، اورجس کو اپنے اوپر اعتماد نہ ہو کہ وہ اخیر شب میں اٹھ پائے گا، اس کے لیے سونے سے پہلے وتر پڑھنا افضل ہے۔نیز اگر عشاء کی نماز کے بعد سونے سے پہلے وتر ادا کرلی ہو تو بھی نیند سے بیدار ہونے کے بعد شب میں تہجد کی نماز ادا کی جاسکتی ہے۔
تاہم رمضان المبارک کے مہینہ میں وتر کی نماز جماعت سے پڑھنا مسنون ہے،اس لیے اگر تہجد کے وقت میں وتر باجماعت ادا کرنے کی صورت ہو تو مؤخر کریں، ورنہ تراویح کے بعد جماعت کے ساتھ وتر ادا کرلیں ،وتر کی ادائیگی کے بعد بھی تہجد کی ادائیگی شرعًا جائز ہے ۔
الدرمع الرد میں ہے:
"(و) تأخير (الوتر إلى آخر الليل لواثق بالانتباه) وإلا فقبل النوم، فإن فاق وصلى نوافل والحال أنه صلى الوتر أول الليل فإنه الأفضل(قوله: وتأخير الوتر إلخ) أي يستحب تأخيره، لقوله صلى الله عليه وسلم «من خاف أن لا يوتر من آخر الليل فليوتر أوله ومن طمع أن يقوم آخره فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة وذلك أفضل» ) رواه مسلم والترمذي وغيرهما وتمامه في الحلية. وفي الصحيحين «اجعلوا آخر صلاتكم وترا» والأمر للندب بدليل ما قبله بحر.(قوله: فإن فاق إلخ) أي إذا أوتر قبل النوم ثم استيقظ يصلي ما كتب له، ولا كراهة فيه بل هو مندوب، ولا يعيد الوتر، لكن فاته الأفضل المفاد بحديث الصحيحين" إمداد".
(کتاب الصلا ۃ،مطلب في طلوع الشمس من مغربہا،ج:2،ص:35،ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101331
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن