کیا نماز تہجد طاق رکعت میں پڑھنا ضروری ہے ؟اگر دو یا چار رکعت پڑھی جا ۓ تو کیا نماز ہوگی یا نہیں؟
اکثر وبیشتر آں حضرت ﷺ کی نمازِ تہجد آٹھ رکعات تھیں، اسی وجہ سے فقہاءِ حنفیہ نے فرمایا ہے کہ تہجد میں افضل آٹھ رکعات ہیں؛ تاہم اگر کوئی شخص محض دو یا چاررکعات تہجد ادا کرتا ہے تو یہ بھی درست ہے اور ایسا شخص تہجد پڑھنے والا شمار ہوگا۔
باقی تہجد نفل نماز ہے، اور نفل نماز دو دو رکعت ہے، یعنی جفت عدد میں ہی ادا کی جاتی ہے، نفل نماز طاق عدد میں اد انہیں کی جاتی، بعض احادیث میں اس کی ممانعت منقول ہے، ہاں جس شخص کا معمول تہجد کی نماز ادا کرنے کا ہو، اس کے لیے مستحب ہے کہ وہ نمازِ وتر عشاء کے متصل بعد نہ پڑھے، بلکہ تہجد کے آخر میں نماز وتر ادا کرے، رسول اللہ ﷺ کا معمول بھی یہی تھا کہ نمازِ تہجد کے آخر میں وتر ادا فرماتے تھے، اس لیے بہت سی روایات میں طاق عدد کا ذکر ملتا ہے، در حقیقت وہ طاق عدد نمازِ تہجد کا نہیں، بلکہ تہجد مع وتر کا ہے۔
’’وصلاة اللیل وأقلها...‘‘وتحته في الشامیة: قال: یصلي ما سهل علیه، ولو رکعتین، والسنة فیها ثمان رکعات بأربع تسلیمات‘‘.
(الدر المختار مع الشامية، کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، مطلب في صلاة اللیل، کراچی ۲/ ۲۵)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144208200679
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن