بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد کی نماز کا طریقہ اور وقت


سوال

نمازِ تہجد کا وقت اور  نمازِ تہجد ادا کرنے کا کیا طریقہ ہے؟

جواب

تہجد کی نماز کا طریقہ وہی ہے جو عام نفل نماز کا ہے، اس کا الگ سے شریعت میں کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں ہے۔ تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر صبح صادق تک ہے، البتہ  رات کے آخری حصے میں پڑھنا افضل ہے،اور تہجد کی نماز میں افضل یہ ہے کہ آٹھ رکعت چار سلام کے ساتھ پڑھی جائیں، یعنی دو ، دو رکعت کرکے پڑھی جائیں، اور ممکن ہو تو قدرے طویل تلاوت کی جائے۔

شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:

’’صلاۃِ تہجد کا وقت عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے صحاح میں روایت موجود ہے  کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب میں بھی اور وسطِ شب میں بھی اورآخرِ شب میں تہجد پڑھی ہے۔

مگرآخری ایام میں اورزیادہ تر اخیرِ شب میں پڑھنا وارد ہے، جس قدربھی رات کاحصہ متاخر ہوتا جاتاہے برکات اور رحمتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں، اورسد سِ آخرمیں سب حصوں سے زیادہ برکات ہوتی ہیں۔

تہجد ترکِ ہجود یعنی ترکِ نوم سے عبارت ہے، اس لیے اوقات نوم بعد عشاء سب کے سب وقت تہجدہی ہیں‘‘۔

نیزمفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ’’معارف القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی ... اسی رات کی نماز کو  اصطلاحِ شرع میں نمازِ تہجد کہاجاتاہے، اورعموماً اس کامفہوم یہ لیا گیاہے کہ کچھ  دیرسو کر اٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ نماز تہجد ہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت  (ومن اللیل فتهجّدبه) کا اتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کو ترک کر دو، اور یہ مفہوم جس طرح کچھ  دیرسونے کے بعد جاگ کرنماز پڑھنے پرصادق آتاہے اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیند کو مؤخر کرکے نماز پڑھنے پربھی صادق ہے، اس لیے نمازِ تہجدکے لیے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایات حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔

امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جو تعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا‘‘۔

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازتہجد کے اصل مفہوم میں بعدم النوم ہوناشرط نہیں،اورالفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں،لیکن عموماً تعامل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کا یہی رہاہے کہ نمازآخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی‘‘۔

ان دونوں تحریرات کاحاصل یہی ہے کہ عشاء کے بعد سے صبح صادق تک نوافل تہجداداکیے جاسکتے ہیں،البتہ افضل وقت رات کاآخری پہرہے۔تہجدکی نمازپڑھنے کے بعدسوناجائزہے، البتہ اس بات کاخیال رکھاجائے کہ تہجدکے بعدسونے کی وجہ سے فجرکی نمازقضانہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201658

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں