بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد کی نماز کے لیے سونا شرط نہیں


سوال

کیا تہجّد کے لیے سونا شرط ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو تہجد کس وقت سے پڑھنا شروع کر سکتے ہیں، مطلب رات کے کس حصے میں بہتر ہے پڑھنا؟

جواب

مفتی اعظم پاکستان محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں سورۃ الإسراء آیت نمبر 79 کی تفسیر  میں تحریر فرماتے ہیں:

"نماز تہجد کا وقت اور اس کے احکام و مسائل

(آیت) وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ لفظ تہجد ہجود سے مشتق ہے اور یہ لفظ دو متضاد معنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اور جاگنے، بیدار ہونے کے بھی اس جگہوَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖکے معنی یہ ہیں کہ رات کے کچھ حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہا کرو کیونکہ "بہ" کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے (مظہری)

قرآن کے ساتھ بیدار رہنے کا مطلب نماز ادا کرنا ہے، اسی رات کی نماز کو اصطلاح شرع میں نماز تہجد کہا جاتا ہے اور عموما اس کا یہ مفہوم لیا گیا ہے کہ کچھ دیر سو کر اٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ نماز تہجد ہے لیکن تفسیر مظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصے میں نماز کے لئے سونے کو ترک کردو اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیر سونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق ہے اسی طرح شروع ہی میں نماز کے لیے نیند کو موخر کرکے نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے، اس لئے نماز تہجد کے لیے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں پھر بعض روایات حدیث سے بھی تہجد کے اس عام معنے پر استدلال کیا ہے۔ فیصل اور امام ابن کثیر نے حضرت حسن بصری سے نماز تہجد کی جو تعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔

قال الحسن البصري هو ماکان بعد العشاء ویحمل علي ماکان بعد النوم (ابن کثیر) حسن بصری فرماتے ہیں کہ نماز تہجد ہر اس نماز پر صادق ہے جو عشاء کے بعد پڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیند کے بعد پر محمول کیا جائے گا۔

اس کا حاصل یہ ہے کہ نماز تہجد کے اصل مفہوم میں بعد النوم ہونا شرط نہیں اور الفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں لیکن عموما تعامل رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا یہی رہا ہے کہ نماز آخر رات میں بیدار ہو کر پڑھتے تھے اس لئے اس کی فضیلت اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔"

(بنی اسرائیل، ٥ / ٥٠٣ - ٥٠٤، ط: إدارة المعارف)

لہذا نماز تہجد کے لیے سونا ضروری نہیں ہے، عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد جو بھی نفل نماز پڑھی جائے، اس پر نماز تہجد کا اطلاق ہوجائے گا، البتہ جس شخص کا رات کے آخری پہر بیدار ہونے کا معمول ہو اس کے لیے اسی وقت تہجد کی نماز ادا کرناافضل ہوگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائقمیں ہے:

"ومن المندوبات صلاة الليل حثت السنة الشريفة عليها كثيرا وأفادت أن لفاعلها أجرا كبيرا فمنها ما في صحيح مسلم مرفوعا «أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم وأفضل الصلاة بعد الفريضة صلاة الليل» وروى ابن خزيمة مرفوعا «عليكم بقيام الليل فإنه دأب الصالحين قبلكم وقربة إلى ربكم ومكفرة للسيئات ومنهاة عن الإثم» وروى الطبراني مرفوعا «لا بد من صلاة بليل ولو حلب شاة وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل» اهـ.

وهو يفيد أن هذه السنة تحصل بالتنفل بعد صلاة العشاء قبل النوم. "

(كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، ٢ / ٥٦، ط: دار الكتاب الإسلامي)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

ولو جعله أثلاثا فالأوسط أفضل، ولو أنصافا فالأخير أفضل.

(قوله ولو جعله أثلاثا إلخ) أي لو أراد أن يقوم ثلثه وينام ثلثيه فالثلث الأوسط أفضل من طرفيه لأن الغفلة فيه أتم والعبادة فيه أثقل ولو أراد أن يقوم نصفه وينام نصفه فقيام نصفه الأخير أفضل لقلة المعاصي فيه غالبا وللحديث الصحيح «ينزل ربنا إلى سماء الدنيا في كل ليلة حين يبقى ثلث الليل الأخير، فيقول: من يدعوني فأستجيب له؟ من يسألني فأعطيه من يستغفرني فأغفر له» ومعنى ينزل ربنا ينزل أمره كما أوله به الخلف وبعض أكابر السلف، وتمامه في تحفة ابن حجر، وذكر أن الأفضل من الثلث الأوسط السدس الرابع والخامس للخبر المتفق عليه «أحب الصلاة إلى الله تعالى صلاة داود، كان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه» . اهـ. وبه جزم في الحلية."

(كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، ٢ / ٢٥، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506100752

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں