بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تہجد کا وقت کیا ہے؟ فجر کا وقت داخل ہوتے ہی نمازادا کرنا


سوال

 تہجد کا سب سے بہتر وقت کون سا ہوتا ہے ؟

میں فجر کا وقت شروع ہونے سے پون گھنٹہ پہلے تہجد پڑھنا شروع کرتا ہوں اور فجر کے وقت سے تھوڑا پہلے تک پڑھتا رہتا ہوں ، فجر کا وقت شروع ہونے کے   تقریبًا آدھے گھنٹے کے بعد اذان ہوتی ہے ۔کیا میں تہجد پڑھنے کے بعد فجر کا وقت شروع ہو  جائے تو فوراً نماز پڑھ سکتا ہوں جب کہ اذان نہ ہوئی ہو؟

جواب

تہجد کی نمازکے لیے افضل وقت کون ساہے؟ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:

’’صلاۃِ تہجد کاوقت عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہے،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے صحاح میں روایت موجودہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتدائے شب میں بھی اوروسط شب میں بھی اورآخرشب میں تہجدپڑھی ہے۔مگرآخری ایام میں اورزیادہ تراخیرِ شب میں پڑھناوارد ہے،جس قدربھی رات کاحصہ متاخرہوتاجاتاہے برکات اوررحمتیں زیادہ ہوتی جاتی ہیں، اورسُدسِ آخرمیں سب حصوں سے زیادہ برکات ہوتی ہیں۔''تہجد'' ترکِ ہجود یعنی ترکِ نوم سے عبارت ہے،اس لیے اوقاتِ نوم بعد عشاء سب کے سب وقت تہجدہی ہیں۔‘‘

نیزمفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ’’معارف القرآن ‘‘میں لکھتے ہیں:

’’لفظ تہجد’’ہجود‘‘سے مشتق ہے،اوریہ لفظ دومتضاد معنی کے لیے استعمال ہوتاہے،اس کے معنی سونے کے بھی آتے ہیں اورجاگنے بیدارہونے کے بھی  ... اسی رات کی نمازکواصطلاح شرع میں نمازتہجدکہاجاتاہے،اورعموماً اس کامفہوم یہ لیاگیاہے کہ کچھ دیرسوکراٹھنے کے بعدجونمازپڑھی جائے وہ نمازتہجدہے،لیکن تفسیرمظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت ﴿وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْبِه ﴾کااتناہے کہ رات کے کچھ حصہ میں نمازکے لیے سونے کوترک کردو،اوریہ مفہوم جس طرح کچھ دیرسونے کے بعد جاگ کرنمازپڑھنے پرصادق آتاہے، اسی طرح شروع ہی میں نمازکے لیے نیندکومؤخرکرکے نمازپڑھنے پربھی صادق ہے،اس لیے نمازِتہجدکے لیے پہلے نیندہونے کی شرط قرآن کامدلول نہیں،پھربعض روایات حدیث سے بھی تہجدکے اسی عام معنی پراستدلال کیاہے۔امام ابن کثیرؒ نے حضرت حسن بصریؒ سے نمازتہجدکی جوتعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پرشاہدہے ،اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’حسن بصری فرماتے ہیں کہ نمازتہجد ہراس نمازپرصادق ہے جوعشاء کے بعدپڑھی جائے، البتہ تعامل کی وجہ سے اس کوکچھ نیندکے بعد پرمحمول کیاجائے گا۔‘‘

اس کاحاصل یہ ہے کہ نمازِتہجد کے اصل مفہوم میں سونے کے بعد جاگنا شرط نہیں،اورالفاظِ قرآن میں بھی یہ شرط موجودنہیں ،لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمومی تعامل  یہی رہاہے کہ نمازِ تہجد آخررات میں بیدارہوکرپڑھتے تھے؛ اس لیے اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔‘‘

ان دونوں تحریرات کاحاصل یہی ہے کہ عشاء کے بعد سے صبح صادق تک نوافل تہجداداکیے جاسکتے ہیں،البتہ افضل یہ ہے کہ ابتدائی رات میں سوجائے اور رات کےآخری پہرمیں تہجد کے نوافل ادا کیے جائیں، اور یہ فجر سے پہلے پہلے پڑھے جاسکتے ہیں۔   

فجر کا وقت داخل ہونے کے بعد اذان سے قبل نماز ادا کرنے سے مراد  اگر دو رکعت سنتِ مؤکدہ کا ادا کرنا ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ نماز کا وقت داخل ہوجانے کے بعد سنتِ  مؤکدہ ادا کرسکتے ہیں، خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، البتہ جن مقامات پر نماز کا وقت داخل ہونے کے  ساتھ  ہی اذان کہی جاتی ہے، ایسی جگہوں میں اذان کے بعد  ہی سنتِ  مؤکدہ ادا کرنے کی اجازت ہوگی،  وقت سے قبل ادا کردہ  نماز نفل شمار ہوگی، وقتی سنتِ مؤکدہ شمار  نہ ہوگی۔

اور اگر اس سے مراد فجر کی فرض نماز ہے تو فرض نماز باجماعت مسجد میں ادا کرنا لازم ہے، تہجد کے لیے بیداررہنے کی وجہ سے فجر کی جماعت کا چھوڑنا درست نہیں ہے۔ مردوں کے لیے  جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ اور واجب کے درجہ میں ہے، اس لیے مرد اگر بلا کسی عذر کے نماز کا وقت ہوتے ہی اذان سے پہلے گھر میں اپنی انفرادی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز ادا تو ہوجائے گی، لیکن جماعت چھوڑنے کا گناہ ملے گا، البتہ اگر کوئی شرعی عذر (بیماری، سفر یا شدید بارش وغیرہ) ہو پھر گناہ نہیں ملے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 383):

"الأصل في مشروعية الأذان الإعلام بدخول الوقت".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552):

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211201470

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں