بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تفویض طلاق


سوال

میری شادی دسمبر2007ء میں پاکستان میں ہوئی، میری بیوی اوراس کے گھروالے بیلجیم میں رہتے ہیں اس لیے وہ شادی کے تین ہفتے بعد وہاں چلی گئی۔ میرے کاغذات بننا شروع ہوئے تو بیلجیم کے قانون کے مطابق میرے نکاح نامےمیں ہم دونوں میاں بیوی کی اجازت سے بذریعہ عدالت نکاح نامہ کے 18 نمبرکالم میں حق خلع کے بجائے بیوی کو حق طلاق تفویض کردیا گیا۔ اوربعد میں بیوی نے یہ لکھ کربھیجا کہ میں بیوی کا نام اپنے خاوندنام کوطلاق دیتی ہوں یہ اس نے تین دفعہ لکھا۔ اب وہ کہتی ہے کہ اس طرح طلاق واقع نہیں ہوئی اوروہ صلح کرنا چاہتی ہے اس نے کئی جگہ سے فتویٰ بھی لیاکہ طلاق نہیں ہوئی۔اب آپ مہربانی فرماکرمیری اس مسئلے میں راہنمائی فرمائیں کہ اس طرح لکھنے سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں جبکہ اس الفاظ سے اس کی مراد یہی تھی کہ میں اپنے خاوند کوطلاق دیتی ہوں یعنی اپنے نکاح سے فارغ کرتی ہوں۔ اورکیا اس حق کے بعد عورت طلاق دے سکتی ہے، اگردے سکتی ہےتواس کے صحیح الفاظ کیا ہوں گےجو وہ استعمال کرے طلاق کے لیے ؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق بیوی کو دی جاتی ہےنہ کہ شوہرکو اورجب بیوی کو حق طلاق تفویض کیا جائے تواس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ خوداپنی ذات پراس حق کواستعمال کرتے ہوئے طلاق کو واقع کرے نہ کہ شوہرکوطلاق دے یا شوہرکو نکاح سے فارغ کرے۔ مثلاً ان الفاظ کے ساتھ کہ میں اپنا حقِ تفویضِ طلاق استعمال کرتے ہوئے خود کواپنے شوہرنام کے نکاح سے آزاد کرتی ہوں، وغیرہ ۔ چنانچہ صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی نے جوالفاظ لکھے ہیں اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی، سائل اوراس کی بیوی بدستور بحیثیت میاں بیوی کے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں