ہمارا ایک مدرسہ ہے، اس مدرسہ میں ہمارے ایک مفتی صاحب تفسیرِ قرآن کا درس دیتے ہیں، جس میں مردوں اور خواتین کا با پردہ نظم ہے، لیکن ہمارے یہاں کے ایک صاحب کا کہنا ہے کہ عورتوں پر تفسیر ہے ہی نہیں (مشروع نہیں)۔ نیز جماعت کے کچھ ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ تفسیر اسی گھر میں کی جا سکتی ہے جس گھر میں عشرہ اور چلہ لگائی مستورات ہوں اور مردوں کی تفسیر بھی صرف مسجد میں کی جا سکتی ہے، مدرسہ میں تفسیر کرنا جائز نہیں اور یہ بھی کہنا ہے کہ تفسیر سننے کے لیے چلہ اور عشرہ لگانا لازم ہے! کیا مذکورہ تمام باتیں از روئے شرع درست ہیں؟ اگر درست نہیں تو پھر اس طرح کی باتیں کر کے تفسیر سے روکنے والے کا کیا حکم ہے؟
واضح ہو کہ تعلیمِ دین (جس کی ایک بڑی صورت مدرسہ میں عوام و طلبہ کے لیے ہونے والے درس ہیں) اور تبلیغِ دین (جس کی ایک بڑی صورت مروجہ دعوت و تبلیغ کی ترتیب ہی)، دونوں دین کے شعبے ہیں اور دونوں شعبوں میں مشغول افراد دینِ اسلام پر عمل کرنے والے اور اس کی خدمت کرنے والے ہیں۔ تاہم، اگر اپنے اپنے شعبے میں اعتدال کے ساتھ لگا جائے تو دونوں شعبے کے افراد ایک دوسرے کے لیے معاون ہوں گے اور نتیجتاًعام مسلمانوں کا اورخود ان لوگوں کا فائدہ ہوگا۔ اور اگر راہِ اعتدال سے ہٹ کر شیطانی فریب میں افراط و تفریط کا شکار ہوگئے تو ایک دوسرے کے معاون بننے کی بجائے ایک دوسرے کے لیے رکاوٹ بن جائیں گے اور نتیجتاً عام مسلمانوں کا اس میں نقصان ہوگا۔
صورتِ مسئولہ میں یہ کہنا درست نہیں کہ عورتوں کے لیے تفسیر مشروع نہیں ہے، اس لیے کہ قرآن کا پیغام تمام انسانوں کے لیے ہے، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ نیز عورت کو جتنی قرآن سے مناسبت ہوگی، اتنا ہی وہ اپنے گھر میں بچوں کی بہتر تربیت کرنے پر قدرت رکھے گی۔
باقی یہ کہنا کہ تفسیر صرف مسجد میں کی جاسکتی ہے، مدرسے میں نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ اسی گھر میں تفسیر کی جاسکتی ہے جس میں عشرہ (یعنی تبلیغی جماعت میں دس دن) یا چلہ (یعنی تبلیغی جماعت میں چالیس دن) لگائی ہوئی مستورات ہوں، یا یہ کہنا کہ تفسیر سننے کے لیے چلہ یا عشرہ لگا ہونا لازم ہے، یہ تمام باتیں افراط و تفریط پر مبنی ہیں اور بالکل درست نہیں ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق تبلیغی جماعت کے بزرگوں کی طرف سے بھی اس طرح کی ہدایات نہیں دی جاتیں۔
ایسا کہنے والے لوگ قابلِ اصلاح ہیں لہذا مذکورہ مدرسہ میں تفسیر قرآن کریم کا جو انتظام موجود ہے، اس میں عورتوں کے لیے اگر واقعی با پردہ انتظام موجود ہے، آنے جانے کا راستہ بھی علیحدہ ہے، کسی قسم کا کوئی اختلاط یا کوئی اور شرعی ممانعت نہ ہو تو قریبی علاقے کی خواتین کا مذکورہ درس قرآن کریم میں شریک ہونا جائز ہے۔
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"وتحقيق ذلك أن المؤمنين متحدون بحسب الأرواح متعددون من حيث الأجسام والأشباح كنور واحد في مظاهر مختلفة، أو كنفس واحدة في أبدان متفرقة، بحيث لو تألم الواحد تأثر الجميع، كما لوح إلى هذا المعنى قوله صلى الله عليه وسلم: " «المؤمنون كرجل واحد إن اشتكى عينه اشتكى كله، وإن اشتكى رأسه اشتكى كله."
(كتاب الآداب، باب الشفقة والرحمة على الخلق، ج7، ص3109، دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144407100294
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن