بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تفرد کے بارے میں شرعی تفصیل


سوال

1):تفرد کسے کہتے ہے؟

2):جو کوئی بھی جمہور علماءسے ہٹ کر بات کرے تفرد کہلائے گا؟تفرد کس کا مانا جائے گا اور کس کا نہیں؟ اِس کے لیے کیا شرائط ہیں؟

3):اگرکسی حکم میں اکثر علماء ایک طرف اور بعض علماء دوسری جانب ہو ں،تو من حیث الجماعت  کیا یہ بھی تفرد کہلائے گا؟

4):متفرد کو ملامت کی جائے گی یانہیں؟

5):تفرد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟تفردات میں ہمارےاکابر کی کیا رائے ہے؟

جواب

1۔تفرد لغوی اعتبار سے "فرد بالأمر والرأى"سے مأخوذ ہے، جس کا معنی ہے کسی معاملہ میں منفرد ہونا اور الگ رائے رکھنا۔

تفرد کی اصطلاحی  تعریف یہ ہے کہ کسی  متبحرعالم کا جمہور سے مجتہد فیہ مسئلہ میں  ایک الگ  رائے اختیار  کرنا،یا اپنا مذہب چھوڑ کر کسی مسئلہ میں غیر کے مذہب یا مرجوح رائے پر عمل کرنا۔

2۔تفرد  اختیار کرنے والے صاحب علم کی امانت و دیانت ،علم وفہم اور تقوی ،امت کے علماء کے ہاں مسلم ہو، اس طور پر کہ وہ شریعت کی تمام نصوصِ  شرعیہ، احادیث شریفہ کے مطالب سے واقف ہو اور  دلائل سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، تو ایسے شخص کا اپنے مذہب سے کسی مسئلہ میں اس طور پر عدول کرنا کہ وہ اپنی قوتِ اجتہاد کے ذریعے نصوص ودلائل پر غور کرنے کے بعد کسی مجتہد فیہ مسئلہ میں اپنے مذہب کے مقابلہ میں غیر کے مذہب کو راجح سمجھتا ہو، تو ایسی صورت میں اس کے لیے اپنی ذات کی حد تک  محض دلائل کی روشنی میں مذہب غیر کو اختیار کرلینے کی گنجائش ہے، لیکن ایسی شخصیت کے ایسے  قول (ذاتی رائے ) کو بلحاظِ ادب تفرد سے تعبیر کیا جائے گا، اور ان کے لیے اس پر عمل کرنے کی گنجائش بھی ہوگی لیکن دوسرے کے لیے نہیں، البتہ اگر کسی میں مذکورہ شرائط مفقود ہوں،تو اس کے لیے محض اپنی  رائے پر عمل کرنا  ناجائز ہوگا؛ کیوں کہ  وہ تدین نہیں ہوگا،  بلکہ تشہی  اور من  مانی ہوگی۔

تاہم جمہور کے قول کے ہوتے ہوئے   دوسروں کے لیے کسی بھی  صاحبِ علم  کے تفرد پر عمل کرنا  قطعاً ناجائز اور حرام ہے؛ کیوں کہ اس تفرد  کے مقابلے میں جمہور کےقول کو ترک کرنے سے خرقِ اجماع لازم آئے گا اور اجماع کی مخالفت حرام ہے، یا اس کے مقابلے میں اصل مذہب (یا مذہب میں مفتیٰ بہ قول) ہوگا اور اس کو ترک کرنے سے مرجوح قول کا اختیار لازم آئے گا، حالاں کہ مرجوح قول پر عمل ممنوع ہے، خلاصہ یہ ہے کہ کسی صاحبِ علم کے احترام اور ان کی اہلیت کا اعتبار کرتے ہوئے ان کو اپنے تفرد میں معذور بلکہ ماجور تو تسلیم کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے تفرد کو قبول کرتے ہوئے  اصل مذہب کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔

3۔اگرکسی بھی  حکم میں جمہور کے خلاف قول اختیار کیا جائے گاتو  وہ بلا شبہ تفرد ہی کہلائے گا ، چاہے  اس کے قائل  ایک سے زیادہ  افراد ہی کیوں نہ ہوں۔

4۔تفرد صاحب علم کی مجبوری اور معذوری ہوتی ہے؛اس وجہ سے اس کو اپنے تفرد پر عمل کی گنجائش دی جاتی ہے ، لہٰذا اس کو ملامت نہیں کیا جائے گا۔

5۔  تفرد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اگر خواہشِ نفسانی کی وجہ سے اختیار کیا گیا ہو،تو ناجائز اور حرام ہے، بلکہ ایسا کرنے سے  ایمان سلب ہونے کا خطرہ ہے،اور اگر بنیاد خواہشِ نفسانی  نہ ہو، تو  اس شخص کے لیے اپنی ذات کی حد تک تفرد کی گنجائش ہے، جو مطلوبہ اہلیت کا حامل ہو۔

تفرد کے بارے میں اکابر کی رائے کا حاصل  تقریباً یہی ہے۔

حوالہ جات  ملاحظہ  ہو:

لسان العرب  میں ہے:

"وفرد بالأمر يفرد وتفرد وانفرد واستفرد؛ قال ابن سيده: وأرى اللحياني حكى فرد وفرد واستفرد فلانا: انفرد به. أبو زيد: فردت بهذا الأمر أفرد به فرودا إذا انفردت به. ويقال: استفردت الشيء إذا أخذته فردا لا ثاني له ولا مثل."

( ف، ر، د، ج:3، ص:331،ط:دارصادر)

فتاوی  شامی میں ہے:

"ومذهب الحنفية المنع عن المرجوح حتى لنفسه لكون المرجوع صار منسوخا اهـ فليحفظ، وقيده البيري بالعامي أي الذي لا رأي له يعرف به معنى النصوص حيث قال: هل يجوز للإنسان العمل بالضعيف من الرواية في حق نفسه، نعم إذا كان له رأي، أما إذا كان عاميا فلم أره، لكن مقتضى تقييده بذي الرأي أنه لا يجوز للعامي ذلك. قال في خزانة الروايات: العالم الذي ‌يعرف ‌معنى ‌النصوص والأخبار وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه اهـ.

قلت: لكن هذا في غير موضع الضرورة."

(مقدمة، ج:1، ص74، ط:سعید)

البحرالرائق کے حاشیہ ’’منحۃ الخالق‘‘ میں ہے:

"أن ‌مثل ‌المحقق ‌له أن يقول ذلك؛ لأنه أهل للنظر في الدليل، وأما مثلنا فلا يجوز له العدول عن قول الإمام أصلا."

(منحة الخالق علی هامش البحر،ج:6، ص:293،  ط:دار الكتاب الإسلامي)

حضرت شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ان الفاظ میں نقل فرمایا ہے:

"وإن لم ‌يتكامل له ‌الأدوات كما ‌يتكامل للمجتهد المطلق، فيجوز لمثله أن يلفق من المذهبين إذا عرف دليلهما."

(حجة الله البالغة،  ج:1، ص:268، ط:دار الجيل)

’’البحرالرائق‘‘ کے حاشیہ ’’منحۃ الخالق‘‘ میں ہے:

"وإن مثلنا فلا یجوز له العدول عن قول الإمام أصلا."

(منحة الخالق علی هامش البحر،ج:6، ص:293،  ط:دار الكتاب الإسلامي)

 شامی ’’رد المحتار‘‘ میں ہے :

"وقد قال العلامة قاسم: ‌لا ‌عبرة ‌بأبحاث ‌شيخنا يعني ابن الهمام."

(كتاب الطهارة، ج:1،ص:27، ط: سعيد)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي   میں ہے:

"وتفرد بالوجوب منا الشيخ ابن ‌الهمام وجد على تفرده، وكذلك تفرد في بعض المسائل، وقال تلميذه ‌العلامة ‌قاسم بن قطلوبفا: لا تقبل تفردات شيخنا، وقال ابن ‌الهمام."

(العرف الشذي شرح سنن الترمذي   (الكشميري)، ج:1، ص:69، دار التراث العربي -بيروت، لبنان)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

" مولانا عبدالحئی لکھنویؒ پر ایک زمانے میں اجتہاد کا اثر رہا، یہ مسئلہ بھی اسی دور میں انہوں نے اپنے ایک رسالہ میں لکھا ہے جس کا نام ہے ’’تحفۃ النبلا‘‘ یا پھر ان کے تفردات میں سے ہےجس کی وجہ سے اصل مذہب کو ترک نہیں کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم۔"

(فتاوی محمودیہ، ج:9، ص:402، ط:  ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144505101654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں