بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

طے شدہ نفع اور سرمائے کی واپسی کی شرط کے ساتھ مضاربت کا معاملہ کرنے کا حکم


سوال

اگر کسی شخص نے کسی شخص کے ساتھ بزنس میں پیسے لگائے اور اس بزنس کرنے والے شخص نے پیسے لے کر کہا کہ محنت اور لین دین میں کروں گا،  آپ کے پیسے ہوں گے اور تقریباً پچاس ہزار  ہر مہینے  اور ہر  ہفتے دو ہزار روپیے منافع دوں گا، اور جب آپ اپنے سرمائے کا مطالبہ کریں گے، تو آپ کو سرمایہ مکمل واپس کردوں گا ، تو کیا اس طرح پیسے دینا اور اس پر منافع لینا درست ہے۔؟ اور کیا جب معاملہ ختم ہو تو صاحب معاملہ اپنی مکمل جمع شدہ رقم  واپس لینے کا حقدار ہے یا نہیں؟ جب کہ اس شرط کے ساتھ ہی شرکت ہوئی تھی کہ جس دن جب جمع شدہ رقم کی ضرورت پیش آئے گی تو جمع شدہ مکمل رقم واپس کرنی ہوگی۔ اس طرح کے معاملے میں مشارکت مضاربت کوئی شکل ہے یا یہ ربا اور سود کے درجے میں ہے۔ اگر کسی نے اس طرح کا معاملہ کرلیا ہےتو اس سے حاصل شدہ آمدنی کا کیا کرے۔؟ اور اس طرح کا معاملہ کیسے ختم کرے۔؟ مذکورہ مسئلہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں ماہانہ  اور ہفتہ وار متعین نفع  کی شرط  اور سرمائے کی واپسی کی یقین دہانی کے ساتھ  معاملہ کرنا شرعا  سودی معاملہ ہےلہذا  مذکورہ معاملہ ختم کرنا ضروری ہے اور سرمایہ لگانے والا شخص کے لیے نفع حلال نہیں ہے، صرف اپنے سرمائے کے بقدررقم  وصول کرسکتا ہے۔سرمایہ لگانے والے شخص  نے جتنی رقم وصول کرلی ہے اگر وہ کل سرمائے سے زیادہ ہے تو اضافی رقم محنت کرنے والے کو واپس کردے اور  اگر وصول کردہ  رقم کل سرمائے  سے کم ہے تو مزید وصول کرلے  ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام.

(قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر، وعن الخلاصة وفي الذخيرة وإن لم يكن النفع مشروطا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به ويأتي تمامه.

قوله فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه إلخ)....قلت: وحاصله أن فيه حقين حق العبد وهو رد عينه لو قائما ومثله لو هالكا وحق الشرع وهو رد عينه لنقض العقد المنهي شرعا وبعد الاستهلاك لا يتأنى رد عينه فتعين رد المثل وهو محض حق العبد ويصح إبراء العبد عن حقه فقول ذلك البعض إن الإبراء لا يعمل في الربا لأن رده لحق الشرع إنما يصح قبل الاستهلاك والكلام فيما بعده."

(کتاب البیوع باب الربا ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"هو لغة: مطلق الزيادة وشرعا (فضل) ولو حكما فدخل ربا النسيئة والبيوع الفاسدة فكلها من الربا فيجب رد عين الربا لو قائما لا رد ضمانه لأنه يملك بالقبض قنية وبحر (خال عن عوض)....(بمعيار شرعي)....مشروط) ذلك الفضل (لأحد المتعاقدين) أي بائع أو مشتر فلو شرط لغيرهما فليس بربا بل بيعا فاسدا (في المعاوضة)."

(کتاب البیوع باب المرابحۃ، فصل فی القرض ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۶۸، ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں