بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تعدیل ارکان نہ کرنے کی صورت میں وقت گزرنے کے بعد سجدہ سہو لازم ہے یا مستحب؟


سوال

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام وفقہائے عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ اسی سال تعديل ارکان کے بغیر پڑھی ہوئی نماز کا اعادہ واجب ہے یانہیں؟ ایک مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ: وقت گزرنے کے بعد اعادہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ان کی دلیل البحر الرائق اور حاشیۃ الطحطاوی وغیرہ کتب میں لکھی ہوئی ہے، یعنی "کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ التحریم تعاد ای وجوبا فی الوقت و اما بعدہ فندبا" جبکہ دوسرے مولوی صاحب کا کہنا ہے کہ: وقت گزرنے کے بعد بھی اعادہ واجب ہے ان کا کہناہے کہ صاحب البحر الرائق کا "تعاد" کی تفسیر"ای وجوبا و ما بعدہ فندبا"کے ساتھ کرنا بلا دلیل ہے، اس لیے صاحب بحر سے پہلے کسی نے یہ تفصیل بیان نہیں کی، بلکہ مطلقاً اعادہ کا حکم لگایا، چنانچہ اعادہ جس طرح وقت کے اندر واجب ہوگا تو وقت کے گزرنے کے بعد بھی واجب ہی رہے گا، وہ اپنی اس بات پر صاحب رد المحتار کی درج ذیل عبارت پیش کرتا ہے:" وَأَمَّا كَوْنُهَا وَاجِبَةً فِي الْوَقْتِ مَنْدُوبَةً بَعْدَهُ كَمَا فَهِمَهُ فِي الْبَحْرِ وَتَبِعَهُ الشَّارِحُ فَلَا دَلِيلَ عَلَيْهِ. وَقَدْ نَقَلَ الْخَيْرُ الرَّمْلِيُّ فِي حَاشِيَةِ الْبَحْرِ عَنْ خَطِّ الْعَلَّامَةِ الْمَقْدِسِيَّ أَنَّ مَا ذَكَرَهُ فِي الْبَحْرِ يَجِبُ أَنْ لَا يُعْتَمَدُ عَلَيْهِ لِإِطْلَاقِ قَوْلِهِمْ: كُلُّ صَلَاةٍ أُدِّيَتْ مَعَ الْكَرَاهَةِ سَبِيلُهَا الْإِعَادَةُ. " برائے مہربانی وضاحت فرما دیں کہ ان میں سے کس کی بات درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ہمارے فقہاءکرام ؒ کااس بات میں اختلاف ہے کہ:کراہت کے ساتھ پڑھی گئی نمازکا اعادہ وقت گزرنے کے بعد واجب ہے یا مستحب،تاہم  راجح قول کے مطابق وقت کے اندر اعادہ واجب ہےاور وقت گزرنے کے بعد مستحب ، یہی راجح رہے اور اسی قول کو فقہاء کی ایک بڑی جماعت (علامہ ابن نجیم، علامہ حصکفی، علامہ طحطاوی اور علامہ حموی وغیرہ )نے اختیار کیا ہے، اور اسی قول پر فتوی ہے۔

الدر المختار میں ہے:

"وفي وقته لخلل غير الفساد لقولهم: كل صلاة أديت مع كراهة التحريم تعاد: أي ‌وجوبا ‌في ‌الوقت، وأما بعده فندبا."

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ص:97، ط:دار الكتب العلمية)

البحر الرائق میں ہے:

"وظاهر كلامهم أنه إذا لم يسجد فإنه يأثم بترك الواجب ولترك سجود السهو ثم اعلم ‌أن ‌الوجوب ‌مقيد بما إذا كان الوقت صالحا حتى أن من عليه السهو في صلاة الصبح إذا لم يسجد حتى طلعت الشمس بعد السلام الأول سقط عنه السجود."

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ج:2،ص:99،ط:دار الکتاب الاسلامی)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"وإعادتها بتركه عمدا" أي ما دام الوقت باقيا وكذا في السهو ان لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم ويكون فاسقا آثما وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر والفرض سقط بالأولى لأن الفرض لا يتكرر كما في الدر وغيره ويندب إعادتها لترك السنة."

(کتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت،ص:248، ط:دار الكتب العلمية)

شرح الحموی میں ہے:

"وإن لم يتم ركوعه ولا سجوده يؤمر بالإعادة في الوقت لا بعده. رأيت القضاء في الحالين أولى."

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:30،ط:دار الکتب العلمیۃ)

امداد المفتین میں ہے:

"اگر  امام صاحب اتنے کھڑے ہوچکے تھے کہ ٹانگیں سیدھی ہوگئی تھیں، اگر چہ پشت وغیرہ سیدھی نہیں ہوئی تھی اور اس حالت کے بعد پھر بیٹھ گئے ، تب تو سجدہ  سہو واجب ہوگا اور  اگر نہ کیا تو نماز باطل تو نہ ہوگی، مگر وقت کے اندر اس نماز کا اعادہ واجب ہوگا اور اگر اعادہ نہ کیا اور وقت گزرگیا تو پھر بطور قضاء اعادہ نہ کیا جائے۔"

(کتاب الصلاۃ، ج:2، ص:316،ط دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں