بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد سورہ بقرہ کا اول و آخر سرًا پڑھا جائے یا جہرًا؟ نیز دعا کا حکم


سوال

کیا تدفین  کے بعد سورہ بقرہ کا اول و آخر جہرًا  تلاو ت کیا جائے یا سراً؟ پہلے قبر پر دعا کی جائے یا تلقین ؟دعا اجتماعی کی جائے یا انفرادی؟

جواب

(1)میت کو قبر میں دفن کرنے کے بعد  اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اورپائنتی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے، یہ آیات جہراً  اور سراً دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں۔

اس سلسلے میں دو روایتیں ملتی ہیں:

1- معجم کبیر میں ہے کہ حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن علاء رحمہ اللہ کو وصیت کی تھی کہ جب میراانتقال ہوجائے اور میرے لیے قبر تیار کردو تو مجھے قبر میں ڈالتے وقت "بسم الله وعلى ملة رسول الله"  پڑھو، میری قبر پر مٹی ڈالو اور پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور اختتامی  آیتیں پڑھو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے۔

امام نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کے راویوں کی توثیق کی ہے۔

2-  حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اسے روکے مت رکھو، بلکہ جلد از جلد قبر تک پہنچاؤ، اس کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پائنتی کی جانب سورہ بقرہ کی اختتامی آیات پڑھی جائیں۔

امام ہیثمی رحمہ اللہ نے یحیی بن عبد اللہ بابلتی کی وجہ سے اس روایت کو ضعیف کہا ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔

علامہ شامی فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ  نے میت کے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور پیروں کی جانب اختتامی آیات پڑھیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے کہ اگر قبر کے پاس قرآن کریم پڑھنے سے میت کو اس آواز سے مانوس کرنا مقصد ہے تو اس طرح کرنا جائز ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قبر کے پاس جہراً  تلاوت کرنا جائز ہے۔

(2) قبر میں تدفین کے بعد اولاً مذکورہ آیات پڑھی جائیں اور آخر میں دعا کی جائے یہی متوارث عمل ہے۔

(3) میت کو دفن کرنے کے بعد قبلہ رخ ہوکر ہاتھ  اٹھا کر دعا کرنا نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لہذا  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  پیروی کرتے ہوئے  قبلہ کی طرف رخ کرکے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے۔ تدفین کے بعد انفرادی طور کرنا بھی درست ہے اور جو لوگ تدفین میں شرکت کی غرض سے آئے ہیں ان کے ساتھ مل کر اجتماعی دعابھی درست ہے۔ یہ دعا سراً بھی کرسکتے ہیں اور جہراً بھی، رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کے لیے قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر بآواز دعا فرمائی جسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، البتہ جہر کو لازم نہ سمجھا جائے۔

معجم کبیر میں ہے:

"حدثنا أبو أسامة عبد الله بن محمد بن أبي أسامة الحلبي، حدثنا أبي ح، وحدثنا إبراهيم بن دحيم الدمشقي، حدثنا أبي ح، وحدثنا الحسين بن إسحاق التستري، حدثنا علي بن بحر، قالوا: حدثنا مبشر بن إسماعيل، حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، قال: قال لي أبي:"يا بني، إذا أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي، فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة، وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك". (المعجم الكبير للطبراني، من اسمه لجلاج 19/ 221 ط: مكتبة ابن تيمية)

مجمع الزوائد میں ہے:

"رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون". ( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 3 / 66 دار الفكر )

معجم کبیر میں ہے:

"حدثنا أبو شعيب الحراني , حدثنا يحيى بن عبد الله البابلتي , حدثنا أيوب بن نهيك , قال: سمعت عطاء بن أبي رباح , يقول: سمعت ابن عمر يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:إذا مات أحدكم فلا تحبسوهوأسرعوا به إلى قبره , وليقرأ عند رأسه بفاتحة الكتاب , وعند رجليه بخاتمة البقرة في قبره". (المعجم الكبير للطبراني، عبد الله بن عمر 12/ 44 ط: مكتبة ابن تيمية)

مجمع الزوائد میں ہے:

"رواه الطبراني في الكبير وفيه يحيى بن عبد الله البابلتي وهو ضعيف". ( مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 3 / 65 دار الفكر )

          فتح الباری میں ہے:

"ويؤيده حديث ابن عمر سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول: إذا مات أحدكم فلاتحبسوه وأسرعوا به إلى قبره، أخرجه الطبراني بإسناد حسن". ( فتح الباري باب السرعة بالجنازة 3 / 184 دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"فقد ثبت أنه عليه الصلاة والسلام قرأ أول سورة البقرة عند رأس ميت وآخرها عند رجليه". (رد المحتار، كتاب الصلاة، باب الجنائز 2 / 242 ط: سعيد)

"وحكي عن الشيخ الإمام الجليل أبي بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى أن قراءة القرآن في المقابر إذا أخفى ولم يجهر لا تكره ولا بأس بها إنما يكره قراءة القرآن في المقبرة جهرا أما المخافتة فلا بأس بها وإن ختم ، وكان الصدر أبو إسحاق الحافظ يحكي عن أستاذه أبي بكر محمد بن إبراهيم رحمه الله تعالى لا بأس أن يقرأ على المقابر سورة الملك سواء أخفى أو جهر وأما غيرها فإنه لا يقرأ في المقابر ولم يفرق بين الجهر والخفية كذا في الذخيرة في فصل قراءة القرآن وإن قرأ القرآن عند القبور إن نوى بذلك أن يؤنسه صوت القرآن فإنه يقرأ وإن لم يقصد ذلك فالله تعالى يسمع قراءة القرآن حيث كانت كذا في فتاوى قاضي خان". ( الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، الباب السادس 4/ 377 ط: رشيديه)

کفایت المفتی میں ہے :

"اس حدیث (في سنن أبي داؤد : إذا فرغ من دفن المیت وقف علی قبره وقال: استغفروا الخ)کے سیاق سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تمام حاضرین ایک ساتھ دعا کرتے تھے؛ کیوں کہ دفن سے فارغ ہونے کے بعد واپس آنے کا موقع تھا، لیکن اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آں حضرت ﷺواپسی میں کچھ تاخیر وتوقف فرماتے تھے، اور میت کی تثبیت و مغفرت کی خود بھی دعا فرماتے تھے اور حاضرین کو بھی اسی وقت دعا کرنے کا حکم کرتے تھے، کیوں کہ "فإنه الآن یسئل" اس کا قرینہ ہے، پس تھوڑی دیر سب کا توقف کرنا اور حاضرین کو اسی وقت دعا واستغفار کا حکم فرمانااور سب کا موجود ہونا اور اس وقت کا وقت قرب سوال نکیرین ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ سب حاضرین کی دعا ایک وقت میں اجتماعاً ہوتی تھی، اور یہی معمول و متوارث ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ اجتماع جو حدیث سے ثابت ہے اجتماع قصداً للدعا یہ بھی نہیں ہے، بلکہ اجتماع قصدی دفن کے لیے ہے، اگرچہ بسبب امور متذکرہ بالا اس وقت دعا بھی اجتماعی طور پر ہوگئی"۔ (4/72دارالاشاعت)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (5 / 452):

’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه‘‘. فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109200128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں