ہمارے گاؤں میں یہ طریقہ ہے کہ جب میت کو دفن کرتے ہیں تو تدفین کے دوسرے دن سب گاؤں والے قبر پر جاتے ہیں اور وہاں قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اس کے بعد دعا کرتے ہیں اور یہ سلسلہ تین چاردن رہتا ہے۔
اسی طرح ہر جمعرات کو میت والے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور دانوں پر تسبیحات پڑھتے ہیں،قرآن پڑھتے ہیں،میت کے لیے دعا کرتے ہیں،پھر وہاں کھاتے ہیں اور بعض لوگ تو صرف کھانے کے لیے آتے ہیں،اور یہ سلسلہ چالیسویں تک چلتا ہے،پھر چالیسویں دن یہ عمل کرتے ہیں،پھر سال میں جب بھی موقع ملے تو ایک دو مرتبہ یہ عمل کرتے ہیں۔
اب معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟
فوتگی کے بعدمسلسل تین چار دن تک قبرپر جاکر تلاوت کرنے سے متعلق کوئی حکم شرعا ثابت نہیں ہے،لہذا اس امر کو لازم سمجھ کر کرنا شرعا درست نہیں ہے،البتہ اگر اس امر کو غیر لازم سمجھتےہوئے کوئی کرے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
باقی تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ انتقال سے تین دن کے اندر کسی بھی وقت میت کے گھر والوں کے یہاں جاکر ان کو تسلی دے ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین و ترغیب اور ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے،تین دن کے بعد تعزیت کے لیے بیٹھنا اورتعزیت کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت کی جارہی ہو اگر وہ دور ہے تو تین کے بعد بھی تعزیت کرنا جائز ہے۔نیز ایصال ثواب کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہے، لہذا ہر جمعرات کو میت کے گھر جانے سے متعلق یا ایصال ثواب کے لیے جمعرات کا دن مخصوص کرنے سے متعلق بھی شریعت کا کوئی حکم نہیں ہے،یہ سب غیر شرعی بدعات عوام میں رائج ہیں، نیز عوام میں ایک غلط عقیدہ یہ بھی مشہور ہے کہ ہر جمعرات میت کے گھر اس کی روح آتی ہے اور دیکھتی ہے کون اسے ثواب بخشتا ہے یہ بھی بے اصل ہے۔اسی طرح سوئم اورچالیسواں وغیرہ کرنا بھی غیر شرعی رسومات و بدعات میں شامل ہے جو کہ ناجائز ہےاور یہ اہل ہنود سے مسلمانوں میں آئی ہیں۔جس سے اجتناب لازم ہے۔
سنن ابن ماجہ میں ہے:
"عن جرير بن عبد الله البجلي، قال: «كنا نرى الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام من النياحة»".
(كتاب الجنائز، باب ما جاء في النهي عن الاجتماع إلى أهل الميت وصنعة الطعام، ج1، ص514، ط:دار احياء الكتب العربية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية، وروى الحسن بن زياد إذا عزى أهل الميت مرة فلا ينبغي أن يعزيه مرة أخرى، كذا في المضمرات.
ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله".
(كتاب الصلاة، الباب الحادى والعشرون في الجنائز، مسائل فى التعزية، ج1، ص167، ط:رشيدية)
اغلاط العوام میں ہے:
"عوام کا عقیدہ ہے کہ ہر جمعرات کی شام کو مردوں کی روحیں اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ایک کونے میں کھڑے ہوکر دیکھتی ہیں کہ ہم کو کون ثواب بخشتا ہے اگر کچھ ثواب ملے گا تو خیر ورنہ مایوس ہوکر لوٹ جاتی ہیں۔"
(عقائد کی اغلاط، ص:16، ط:ادارۃ المعارف)
راہ سنت میں ہے:
"دلائل اربعہ میں سے کوئی دلیل اس پر دال نہیں ہے کہ ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تعیین ضروری ہے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ رسم مسلمانوں اہل ہنود سے لی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تعیین ہے۔"
(ایصال ثواب کے لئے دنوں کی تعیین، ص:260، ط:دار الکتاب دیوبند)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102035
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن