بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

قبرستان میں سڑک گزارنے اور تدفین کے بعد قبر کھولنے کا حکم


سوال

 میرے گھر کے قریب ایک بہت پرانا قبرستان ہے اور اس کے ساتھ ہی سر کاری سڑک ہے ، اب  سرکاری طور پر سڑک کو بڑھایا جارہا ہے،جس کی وجہ سے  مذکورہ سڑک قبرستان میں آتی ہے اور وہاں بیت الخلاء اور نالی و غیرہ کی گند کی آنے کا خدشہ ہے ،جس کی وجہ سےاس  قبرستان میں  میت کی توہین ہوتی ہے،سوال یہ ہے کہ کیا  ایس صورت میں میت کو مذکورہ قبرستان سے منتقل کرنا شرعی نقطہ نظر سے جائز ہوگا ؟

جواب

واضح رہے کہ   قبرستان کی وقف شدہ  زمین پر  سڑک بنانا جائز نہیں ہے۔ البتہ  اگر   قبرستان کے علاوہ دوسری جگہ سے راستہ بنانے کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو مفادِ عامہ کے تحت  قبرستان کی بقیہ جگہ اور ان پرانی  قبروں کی جگہ کہ جن میں سوائے بوسیدہ ہڈیوں کے کچھ باقی نہ  رہاہو، وہا ں راستہ بناسکتے ہیں،لیکن بلاضرورتِ  شدیدہ  قبرستان کی زمین میں راستہ  وغیرہ بنانا جائز نہیں ۔نیزمیت کو دفن کرنے کے بعد بغیر کسی عذرِ شرعی کے قبر کو کھولنا اور میت کو قبر سے نکالنا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  صرف گندگی کے خدشے کی وجہ سے مذکورہ قبرستان سے کسی میت کو  دوسری جگہ منتقل کرنا قطعاً ناجائز ہے،نیز قبرستان میں گند گی وغیرہ بہانابھی جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں قبرستان میں گندگی کی روک تھام کے لیے کوئی مؤثر اقدام کیا جاۓ،تاکہ قبروں کی بے حرمتی نہ ہونے پاۓ۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله: (وإن جعل شيء من الطريق مسجدا صح كعكسه) معناه إذا بنى قوم مسجدا واحتاجوا إلى مكان ليتسع فأدخلوا شيئا من الطريق في المسجد وكان ذلك لا يضر بأصحاب الطريق جاز ذلك وكذا إذا ضاق المسجد على الناس وبجنبه أرض لرجل تؤخذ أرضه بالقيمة كرها لما روي عن الصحابة  أنهم لما ضاق المسجد الحرام أخذوا أرضين بكره من أصحابها بالقيمة وزادوا في المسجد الحرام وقوله كعكسه أي كما جاز عكسه وهو ما إذا جعل في المسجد ممر لتعارف أهل الأمصار في الجوامع وجاز لكل أحد أن يمر فيه حتى الكافر إلا الجنب والحائض والنفساء لما عرف في موضعه وليس لهم أن يدخلوا فيه الدواب والله أعلم بالصواب  (قوله: في المتن وإن جعل شيء من الطريق مسجدا إلخ) قال الولوالجي رحمه الله في فتاواه: مسجد أراد أهله أن يجعلوا الرحبة مسجدا أو المسجد رحبة أو أرادوا أن يحدثوا له بابا أو أرادوا أن يحولوا الباب عن موضعه فلهم ذلك فإن اختلفوا ينظر أيهم أكثر وأفضل فلهم ذلك لأنه لا تعارض لانعدام التساوي اهـ وكتب ما نصه قال الكمال وفي كتاب الكراهية من الخلاصة عن الفقيه أبي جعفر عن هشام عن محمد أنه يجوز أن يجعل شيء من الطريق مسجدا أو يجعل شيء من المسجد طريقا للعامة."

( کتاب الوقف، فصل: من بنی مسجدا لم یزل ملکه عنه حتی یفرزہ عن ملکه، 331/3، ط: المطبعة الکبری الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و لو بلی المیت و صار ترابًا جاز دفن غیرہ في قبرہ وزرعه و البناء علیه."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجنائز، مطلب في دفن المیت، 233/2،ط؛سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولا يخرج من القبر إلا أن تكون الأرض مغصوبة) أي بعد ما أهيل التراب عليه لا يجوز إخراجه لغير ضرورة للنهي الوارد عن نبشه وصرحوا بحرمته وأشار بكون الأرض مغصوبة إلى أنه يجوز نبشه لحق الآدمي كما إذا سقط فيها متاعه أو كفن بثوب مغصوب أو دفن في ملك الغير أو دفن معه مال أحياء لحق المحتاج قد «أباح النبي صلى الله عليه وسلم نبش قبر أبي رعال لعصا من ذهب معه» كذا في المجتبى ... وأفاد كلام المصنف أنه لو وضع لغير القبلة أو على شقه الأيسر أو جعل رأسه في موضع رجليه أو دفن بلا غسل وأهيل عليه التراب فإنه لا ينبش قال في البدائع؛ لأن ‌النبش ‌حرام حقا لله تعالى...وأطلق المصنف فشمل ما إذا بعدت المدة أو قصرت كما في الفتاوى."

(كتاب الجنائز،الصلاة علي الميت في المسجد،210/2،ط:دار الكتاب الإسلامي)

الفقہ علی المذاہب الاربعۃ میں ہے:

"يحرم ‌نبش ‌القبر ما دام يظن بقاء شيء من عظام الميت فيه، ويستثنى من ذلك أمور: منها أن يكون الميت قد كفن بمغصوب، وأبى صاحبه أن يأخذ القيمة، ومنها أن يكون قد دفن في أرض مغصوبة، ولم يرص مالكها ببقائه، ومنها أن يدفن معه مال بقصد أو بغير قصد، سواء كان هذا المال له أو لغيره، وسواء كان كثيراً أو قليلاً، ولو درهماً، سواء تغير الميت أو لا، وهذا متفق عليه."

(كتاب الصلوة،مباحث صلوة الجنازة،نبش القبر،488/1،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں