بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے وقت سورۂ بقرہ کا اول اور آخر پڑھنے اور دعا کرنے کا حکم اور وقت


سوال

 کیا تدفین کرتے وقت سورۂ بقرہ کا اول و آخر اور دعا, قبر زمین برابر ہو جائے تب پڑھی جائے یا قبر مکمل کرنے کے بعد؟ دعا سورۃ البقرہ کی تلاوت کے متصل بعد کی جائے یا جو بھی مسنون طریقہ ہے?

جواب

 میت کو دفن کرنے کے بعد جب مٹی ڈالنے کا کام مکمل ہوجائے تو میت کے سرہانے (سر کے پاس) سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں ”الم“ سے ”المفلحون “  تک پڑھنا، اور میت کی پائینتی (پاؤں کی طرف) پر سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمن الرسول“ سے آخر تک پڑھنا مستحب ہے، اور حدیث سے ثابت ہے، لیکن حدیث اور فقہاء کی عبارات میں اسے سراََ یا جہراََ پڑھنے کا حکم صراحتاَ کہیں نہیں ملا، اس لیے یہ آیات جہراً  اور سراً دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں،  البتہ اکابرین کے فتاوی میں اسے سراََ پڑھنے کی صراحت موجود ہے، تاہم اس کے  جہراً پڑھنے کو بھی کسی نے ناجائز نہیں لکھا، لہذا بہتر یہی ہے  کہ اسے سراً (آہستہ آواز سے) پڑھا جائے، جہراً   کا التزام نہ کیا جائے۔

معجم کبیر میں ہے کہ حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبد الرحمن بن علاء رحمہ اللہ کو وصیت کی تھی کہ جب میراانتقال ہوجائے اور میرے لیے قبر تیار کردو تو مجھے قبر میں ڈالتے وقت "بسم الله وعلى ملة رسول الله"  پڑھو، میری قبر پر مٹی ڈالو اور پھر میرے سرہانے سورہ بقرہ کی ابتدائی اور اختتامی  آیتیں پڑھو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے۔

نیز  قبر میں تدفین کے بعد اولاً مذکورہ آیات پڑھی جائیں اور آخر میں دعا کی جائے، یہی متوارث عمل ہے۔

معجم کبیر میں ہے:

"حدثنا أبو أسامة عبد الله بن محمد بن أبي أسامة الحلبي، حدثنا أبي ح، وحدثنا إبراهيم بن دحيم الدمشقي، حدثنا أبي ح، وحدثنا الحسين بن إسحاق التستري، حدثنا علي بن بحر، قالوا: حدثنا مبشر بن إسماعيل، حدثني عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه، قال: قال لي أبي:"يا بني، إذا أنا مت فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي، فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي الثرى سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة، وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك". (المعجم الكبير للطبراني، من اسمه لجلاج 19/ 221 ط: مكتبة ابن تيمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثًا، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور ويفرق لحمه.

(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم واسألوا الله له التثبيت فإنه الآن يسأل» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها". (2/237،  باب صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)

 مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"(وليقرأ) بالتذكير ويؤنث، وبسكون اللام ويكسر. (عند رأسه فاتحة البقرة) أي: إلى المفلحون. (وعند رجليه بخاتمة) وفي نسخة خاتمة. (البقرة) أي: من. (آمن الرسول) إلخ. قال الطيبي: لعل تخصيص فاتحتها لاشتمالها على مدح كتاب الله، وأنه هدى للمتقين، الموصوفين بالخلال الحميدة من الإيمان بالغيب، وإقامة الصلاة، وإيتاء الزكاة، وخاتمتها لاحتوائها على الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله، وإظهار الاستكانة، وطلب الغفران والرحمة، والتولي إلى كنف الله تعالى وحمايته". (3 / 1228، باب دفن المیت،  ط؛ دار الفکر بیروت)

      (فتاوی محمودیہ9/107، باب الجنائز، ط؛ فاروقیہ) (وکذا فی فتاوی دارالعلوم دیوبند، 5/275، کتاب الجنائز، ط؛ دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200469

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں