بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد متعدد افراد کا اجتماعی دعا کرنا


سوال

تدفین کے بعد تلاوت کرکے دوتین بار دعا کرنا اجتماعی طور پر کہ ایک دعا ایک عالم کرے،پھر دوسرا عالم دوسری دعا کرےاجتماعی طور پر ۔کیا یہ عمل درست ہے؟

جواب

تدفین کے بعد سورہ بقرہ کا شروع اور آخر پڑھنے  اور دعاسے متعلق شرعی طریقہ یہ ہے کہ :

 میت کو دفن کرنے کے بعد جب مٹی ڈالنے کا کام مکمل ہوجائے تو میت کے سرہانے (سر کے پاس) سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیتیں”الم“سے ”المفلحون “  تک پڑھنا، اور میت کی پائینتی (پاؤں کی طرف) پر سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ”آمن الرسول“سے آخر تک پڑھنا مستحب ہے، اور حدیث سے ثابت ہے، لیکن حدیث اور فقہاء کی عبارات میں اسے سرًّا یا جہرًّا پڑھنے کا حکم صراحتًا کہیں نہیں ملا، اس لیے یہ آیات جہرًا  اور سرًّا دونوں طرح پڑھ سکتے ہیں،  البتہ اکابرین کے فتاوی میں اسے سرًّا پڑھنے کی صراحت موجود ہے، تاہم اس کے  جہرًا پڑھنے کو بھی کسی نے ناجائز نہیں لکھا، لہذا بہتر یہی ہے  کہ اسے سرًّا (آہستہ آواز سے) پڑھا جائے، جہر  کا التزام نہ کیا جائے۔

نیز  قبر میں تدفین کے بعد اولاً مذکورہ آیات پڑھی جائیں اور آخر میں  کوئی ایک شخص میت کے لیے دعا کروادے، یہی متوارث عمل ہے، اور یہ دعا بھی سرًّا بہتر ہے، نیز دعا کے وقت قبلہ رُخ ہوکر دعا کرنا چاہیے۔

جو صورت آپ نے لکھی ہے کہ تدفین کے بعد پہلے ایک عالم دعا کراتا ہے،پھر دوسرا عالم دوسری دعا کراتا ہے،اسی طرح متعدد بار دعا کا اہتمام ہوتاہے،یہ طریقہ ثابت نہیں ہے،اس سے اجتناب ضروری ہے ،تاکہ آئندہ اس کے اہتمام کا رواج نہ ہو۔

         حدیثِ مبارک میں ہے:

'' عن عبد الله بن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره، وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة». رواه البيهقي في شعب الإيمان. و قال: و الصحيح أنه موقوف عليه."

( مشكوة المصابيح،كتاب الجنائز، ج: 1، ص: 538، ط: المكتب الإسلامي)

مرقاة المفاتيح شرح مشكوة المصابيح ميں هے:

’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه‘‘.

(كتاب الجنائز، باب دفن الميت، ج: 3، ص: 1222، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"و يستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثاً، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور، ويفرق لحمه.

(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي - صلى الله عليه وسلم - إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم واسألوا الله له التثبيت فإنه الآن يسأل» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها، وروي أن عمرو بن العاص قال وهو في سياق الموت: إذا أنا مت فلا تصحبني نائحة ولا نار، فإذا دفنتموني فشنوا علي التراب شنا، ثم أقيموا حول قبري قدر ما ينحر جزور، ويقسم لحمها حتى أستأنس بكم وأنظر ماذا أراجع رسل ربي جوهرة."

(كتاب الصلوة، باب صلوة الجنازة، مطلب في دفن الميت، ج: 2، ص:237،ط: سعيد)

الاعتصام للشاطبي میں ہے:

''ومنها: (ای من البدع)  التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته''.

(الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها وما اشتق منه لفظا،ج: 1، ص: 53، ط: دار ابن عفان)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں