بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تدفین کے بعد قبر پر سورۂ بقرۃ کا اول وآخر پڑھنے کا ثبوت


سوال

مسئلہ ہے کہ جب میت کو قبر میں دفن کردیا جاتا ہے تو اس کے بعد قبر کے سرہانے سورۃ بقرہ کی شروع کی آیتیں اور پیر کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیتیں پڑھنا مستحب  عمل ہے۔ اور یہ حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جو کہ مشکاة میں بھی مذکور ہے، اور شعب الایمان للبیہقی جلد نمبر ۷ میں صفحہ نمبر ۱۶ ( دارالکتب العلمیة) پر بھی پوری سند کے ساتھ  ذکر ہے، لیکن ایک عالم کہتا ہے کہ یہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما پر بہتان ہے۔ گزارش ہے کہ حدیث کی تخریج کرکے مسئلہ واضح کریں۔ 

جواب

تدفین کے بعد قبر پر سورۃ بقرۃ کا اول وآخر پڑھنے کے متعلق حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث ، صاحبِ ’’مشکاۃ  المصابیح‘‘ کے علاوہ امام خلال ، امام طبرانی اور امام بیہقی رحمہم اللہ نے نقل کی ہے، جس کی تفصیل درج ذیل  ہے:

 "يحيى بن عبد الله الضحاك البابلتي، حدثنا أیوب بن نهیك الحلبي الزهري مولی آل سعد بن أبي وقاص قال: سمعت عطاء بن أبي رباح المکي، قال: سمعت ابن عمر، قال: سمعت النبي ﷺ یقول: إذا مات أحدکم فلا تحبسوه، وأسرعوا به إلى قبره، ولیقرأ عند رأسه  بفاتحة البقرة، وعند رجليه بخاتمتها في قبره۔"

(کتاب القراء ۃ عندالقبور،ص:88 ، والأمربالمعروف والنهي عن المنکر: ۱/۲۹۲،کلاهما للخلال، المعجم الکبیرللطبراني: 6/255، شعب الإیمان للبيهقي: 11/471-472)

"عطاء بن ابی رباح مکیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما  کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی کریم  ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجائے،تواسے زیادہ دیر روکے نہ رکھو، اس کو جلدی قبر کی طرف لے  جاؤ،اور قبرپر اس کے سرکے قریب سورۂ بقرہ کا ابتدائی حصہ اورپاؤں کے قریب سورۃ بقرۂ کاآخری حصہ پڑھو۔"

حافظ ابن حجرؒ نے’’فتح الباري‘‘ میں یہ حدیث نقل کرکے سندکے اعتبار حسن درجے کا قراردیاہے۔

صاحب مشکوۃ نے ’’مشکاۃ المصابیح‘‘ میں یہ حدیث نقل کرکےلکھا ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے:’’یہ موقوف ہے‘‘۔لیکن صاحب مشکوۃ سے یہاں امام بیہقی رحمہ اللہ کی بات سمجھنے میں تسامح ہوا ہے،  درحقیقت امام بیہقی  رحمہ اللہ نے اس روایت کو مرفوع نقل کرنے کے بعدلکھا ہے: ’’یہ روایت ہمیں موقوف بھی پہنچی ہے‘‘۔ گویا یہ حدیث مرفوع وموقوف دونوں طرح مروی ہے، اور اصولی طور پر اس طرح  کی موقوف روایت بھی مرفوع کے حکم میں ہوتی ہے۔

بہرکیف یہ روایت کئی  معتبرکتبِ حدیث میں  نقل کی گئی ہے، اس کے علاوہ   ایک روایت حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جسے امام طبرانی ؒ نے ”المعجم الکبیر“ میں نقل کیا ہے: 

"عبدالرحمن بن العلاء بن اللجلاج، عن أبيه قال: قال لي أبي:  یابني! إذا أنا مِتُّ فألحدني، فإذا وضعتني في لحدي فقل: بسم الله وعلى ملة رسول الله، ثم سن علي التراب سنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمتها، فإني سمعت رسول الله ﷺ یقول ذلك".

(المعجم الکبیر للطبراني: ۱/۱۱۸)

"عبدالرحمن بن علاء بن لجلاج اپنے والدعلاء سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے والدحضرت لجلاج  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اے میرے بیٹے ! جب میں مرجاؤں، تومجھے لحدمیں رکھ دینا، اوریہ دعاپڑھنا :’’بسم الله وعلى سنة رسول الله‘‘اورمیرے سرہانے سورهٔ بقرہ کا اول وآخر پڑھنا:کیونکہ میں نے رسول اﷲ ﷺکو یوں پڑھتے سنا ہے۔"

یہ روایت بھی مرفوع اور موقوف دونوں طرح مروی ہے۔ ان کے علاوہ قبرستان میں تلاوتِ قرآن کے جواز پر متعدد روایات کتبِ حدیث میں درج ہیں۔ ہماری جامعہ کے متخصص فی علوم الحدیث والفقہ الاسلامی مولانا اسد اللہ پشاوری نے اس مسئلے پر مستقل مقالہ  لکھا ہے، جو ’’قبر پر سورہ بقرہ اول وآخرکی تلاوت۔ ایک تحقیقی جائزہ‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں مکتبۃ الأسد العلمية  ( پشاور) سے شائع ہوچکا ہے۔ لہذا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کو ان پر بہتان کہنا بالکل مناسب نہیں ۔

"رد المحتار"  میں ہے:

' ويستحب حثيه من قبل رأسه ثلاثاً، وجلوس ساعة بعد دفنه لدعاء وقراءة بقدر ما ينحر الجزور، ويفرق لحمه.

(قوله: وجلوس إلخ) لما في سنن أبي داود «كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف على قبره وقال: استغفروا لأخيكم، واسألوا الله له التثبيت ؛ فإنه الآن يسأل۔» وكان ابن عمر يستحب أن يقرأ على القبر بعد الدفن أول سورة البقرة وخاتمتها'.

(2/237،  باب صلاۃ الجنازۃ، ط؛ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں