بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹڈی دل کھانے کا حکم


سوال

موجودہ دور میں جو ٹڈی دل ہے، کیا ان کا کھانا درست ہے؟ اگر ہے تو کیسے کھایا جائے؟

جواب

ٹڈی جس کو عربی میں ’’جراد‘‘ اور انگریزی میں  ’’Locust ‘‘ کہتے ہیں،یہ حلال ہے،حدیث شریف  میں ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے  لیے دو میتہ (مچھلی اور ٹڈی )اور دو خون (جگر اور تلیّ )حلال کردیے گئے ہیں۔

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’نیل الاوطار‘‘  میں ابن العربی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ جراد کی دو قسمیں ہیں، ایک حجاز کی ٹڈیاں اور دوسری اندلس کی ٹڈیاں، پھر اندلس کی ٹڈیوں سے متعلق لکھا کہ اس کو نہیں کھایا جائے گا؛  اس لیے کہ اس کے کھانے میں ضررِ محض ہے،  اس لیے اس کا کھانا درست نہیں، لہذا ٹڈی کی  جس قسم میں ضرر ہو  اس کو نہیں کھایا جائے گا، باقی کو کھایا جاسکتا ہے، البتہ  احادیث میں اس تفصیل کی صراحت نہیں مل سکی۔  لیکن اصولی بات یہ ہے کہ جس غذا کا صحت کے لیے مضر ہونا یقینی یا تجربے سے ثابت ہو اس سے اجتناب کیا جائے۔ چوں کہ حجاز میں وہی ٹڈیاں پائی جاتی ہوں گی جو صحت کے لیے مضر نہ ہوں، اس لیے حدیث میں مطلقاً حلال ہونے کا ذکر ہے۔

 اصولی بات یہ ہے کہ ٹڈی مردہ حالت میں حلال ہے، اسے ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کھانے کی کیفیت اس کے کھانے والوں سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

مسند أحمد ط الرسالة (10/ 16):

"عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ، وَدَمَانِ. فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ: فَالْحُوتُ وَالْجَرَادُ، وَأَمَّا الدَّمَانِ: فَالْكَبِدُ وَالطِّحَالُ ".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 307):

"(وحل الجراد) وإن مات حتف أنفه، بخلاف السمك (وأنواع السمك بلا ذكاة)؛ لحديث: «أحلت لنا ميتتان: السمك والجراد، ودمان: الكبد والطحال» بكسر الطاء.

 (قوله: لحديث: «أحلت لنا ميتتان» إلخ) وهو مشهور مؤيد بالإجماع فيجوز تخصيص الكتاب به، وهو قوله تعالى: {حرمت عليكم الميتة والدم} [المائدة: 3] على أن حل السمك ثبت بمطلق قوله تعالى: {لتأكلوا منه لحماً طرياً} [النحل: 14]، كفاية".

نيل الأوطار (8/ 169):
"ونقل النووي الإجماع على حل أكل الجراد. وفصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه ضرر محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من جراد البلاد تعين استثناؤه".

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (9/ 415):
"والحديث يدل أيضًا على جواز أكل الجراد مطلقًا وقد حكى غير واحد من أهل العلم الإجماع على إباحة أكله، لكن فصل ابن العربي في شرح الترمذي بين جراد الحجاز وجراد الأندلس، فقال في جراد الأندلس: لايؤكل؛ لأنه محض، وهذا إن ثبت أنه يضر أكله بأن يكون فيه سمية تخصه دون غيره من الجراد البلاد تعين استثناؤه، كذا في الفتح".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں