بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعدادِ رکعات میں غالب گمان کا بدل جانا


سوال

اگر کسی کو نماز میں بھول ہوگئی ہو پھر وہ اپنے غالب گمان میں یہ سمجھے کہ میری دو رکعتیں ہوئی ہیں،  پھر اگر اسے دوبارہ تیسری رکعت میں یہ غالب گمان ہوا کہ میری تو ایک رکعت ہوئی تھی نہ کہ دو ، تو ایسی صورت میں وہ پہلے والے غالب گمان پر عمل کرے یا دوسرے والے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کو  یہ  شک(نماز  میں رکعتوں کی تعداد کے متعلق شک) پہلی مرتبہ ہوا ہے تو نماز نئے سرے سے شروع کرنا اس پر لازم تھا۔

اور اگر پہلی دفعہ نہیں تھا، تو  اس صورت میں یہ شخص  آخری والے غالب گمان پر عمل کرے گا؛ کیوں کہ جب اس کا غالب گمان یہ ہوگیا ہے کہ  یہ دوسری رکعت پڑھ رہا ہوں نہ کہ تیسری رکعت، تو اس نے اپنے پہلے  والے گمان کی خود تغلیط کردی ہے، لہٰذا اب  اس کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ حالیہ  رکعت کو دوسری رکعت شمار کرتے ہوئے مزید دو رکعتیں پڑھے گا، اور آخر  میں سجدۂ  سہو بھی کرے گا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وإن كثر) شكه (عمل بغالب ظنه إن كان) له ظن."

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 93)،[باب سجود السهو]، كتاب الصلاة،ط: سعید)

مراقی الفلاح میں ہے:

"«وإن كثر الشك" تحرى و "عمل" أي أخذ "‌بغالب ‌ظنه لقوله صلى الله عليه وسلم "إذا شك أحدكم فليتحر الصواب فليتم عليه»."

(‌‌«مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح» (ص183):فصل في الشك، ‌‌باب سجود السهو، ‌‌كتاب الصلاة، الناشر: المكتبة العصرية)

مزید دیکھیے:

تیسری اور چوتھی رکعت میں شک ہو جائے تو کیا حکم ہے؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307200013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں