بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغی جماعت والے کب قصر کریں گے اور کب اتمام؟


سوال

تبلیغی جماعت والوں کی جب کسی علاقے میں تشکیل کی جاتی ہے، تو وہ مختلف دیہاتوں میں جاتے ہیں، کہیں تین دنوں کے لیے، کہیں پینتیس، چالیس دنوں کے لیے، اور ایک گاؤں سے لے کر دوسرے گاؤں تک کا فاصلہ ایک، دو کلو میٹر سے لے کر دس، بارہ کلو میٹر تک کا ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں وہ سفر کی نماز پڑھیں گے یا حالتِ اقامت کی؟

جواب

تبلیغی جماعت والوں کا  اگر اپنے شہر یا قصبے سے باہر سوا ستتر کلو میٹر یا ا س سے زیادہ سفر کا اراد ہ ہو تو ان کے مسافر یا مقیم ہونے کے لیے بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ اگرجماعت  کی تشکیل کسی شہر یا بڑے گاؤں یا بستی  میں 15 دن یا اس سے زیادہ کے لیے ہو اور وہیں کی کئی مساجد میں جانا  ہو تو اس شہر/بستی میں وہ جماعت مقیم کہلائے گی اور  پوری نماز پڑھیں گے خواہ وہاں کی کسی بھی مسجد میں چلی جائے،  اور اگر کئی بستیوں میں تشکیل ہو اور ہر تین دن بعد یا  کچھ دن (جو پندرہ دن سے کم ہوں) بعد بستی تبدیل کرکے دوسری بستی یا گاؤں میں جانا پڑتا ہو جس کا نام وغیرہ بھی الگ ہو  اور مقامی لوگوں کے ہاں بھی وہ بستی بالکل علیحدہ شمار ہوتی ہو تو  اس صورت میں چوں کہ جماعت  کی اقامت ایک جگہ پر 15 دن کی نہیں ہے؛ اس لیے جماعت مسافر  ہو گی اور قصر (سفر کی) نماز پڑھے گی، البتہ اگر ان میں سے کسی بستی میں پندرہ دن یا اس سے زائد کی تشکیل ہو تو اس بستی میں وہ مقیم شمار ہو کر پوری نماز پڑھے گی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء: أحدها: صريح نية الإقامة وهو أن ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للإقامة فلا بد من أربعة أشياء: نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة.

(وأما) اتحاد المكان: فالشرط نية مدة الإقامة في مكان واحد؛ لأن الإقامة قرار والانتقال يضاده ولا بد من الانتقال في مكانين وإذا عرف هذا فنقول: إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما؛ لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر فقد وجد الشرط وهو نية كمال مدة الإقامة في مكان واحد فصار مقيما وإن كانا مصرين نحو مكة ومنى أو الكوفة والحيرة أو قريتين، أو أحدهما مصر والآخر قرية لا يصير مقيما؛ لأنهما مكانان متباينان حقيقة وحكما، ألا ترى أنه لو خرج إليه المسافر يقصر فلم يوجد الشرط وهو نية الإقامة في موضع واحد خمسة عشر يوما."

(كتاب الصلاه، فصل ما يصير المسافر به مقيما، ج: 1، ص: 98، ط: دار الكتب العلمية)

فیہ ایضاً:

"وأما بيان ما يصير به المقيم مسافرا: فالذي يصير المقيم به مسافرا نية مدة السفر والخروج من عمران المصر فلا بد من اعتبار ثلاثة أشياء: أحدها: مدة السفر وأقلها غير مقدر عند أصحاب الظواهر، وعند عامة العلماء مقدر، واختلفوا في التقدير قال أصحابنا: مسير ثلاثة أيام سير الإبل ومشي الأقدام وهو المذكور في ظاهر الروايات."

(كتاب الصلاة، فصل ما يصير المقيم به مسافرا، ج: 1، ص: 93، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407102144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں