میں نے ایک شخص کو رائیونڈ کی اجتماع میں جانے کی دعوت دی، مگر اس صاحب نےآگے سے جواب دیا کہ اگر مجھے چند سوالوں کا جواب ملیں گی تو جاؤں گا اور ایک عدد سوالوں کی لسٹ تھما دیا جس میں دس سوال ہیں ۔ اب وہ سوال پڑھ کر میں خود بھی چکرا گیا ہوں ،برائے مہر بانی مجھے ان سوالوں کا قرآن و حدیث کی دلائل کے ساتھ جواب دے دیں اب ان سولوں منے مجھے کافی پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ فضائل اعمال کی جگہ قرآن پاک ، صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس کیوں نہیں دیا جاتا جو کہ صحیح ترین کتب ہیں ؟ کل وقتی کارکنان امراءاور بیرون کے لیئے وفود کا خرچہ کہاں سے آ تا ہے۔ نیز اجتماع کا خرچہ کہاں سے آتا ہے۔حالانکہ تبلیغی جماعت کوئی چندہ اکٹھا نہیں کرتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً ہر جنگ سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ سے مالی اعانت لی ؟ تبلیغی جماعت کے ساتھ کتنا وقت لگانے سے ایک مسلمان قرآن اور حدیث سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے ؟ مضبوطی ایمان کے لیے کتنا عرصہ درکار ہے؟ عربوں کو ریاض الصالحین اور عجمیوں (پاکستانی ،ہندوستانی وغیرہ)کو فضائل( فضائل اعمال،صدقات،حج،درود ۔۔) کی کتابیں کیوں پڑھائی جاتی ہیں؟6 فضائل اعمال کا عربی ترجمہ کیوں نہیں ہوا؟ کیا تبلیغی جماعت دیوبندیوں میں بھی ایک فرقہ ہے؟ ترجمة القرآن سیکھنے اور سکھانے سے کیوں روکا جاتاہے؟ تبلیغی جماعت کا دعوی ہے کہ سب ٹھیک ہے تو تہتر میں سے کون سا فرقہ جنت میں جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے لئے جماعتیں روانہ کیں کیا تبلیغی جماعت نے کبھی اس سنت پر عمل کیا یا ان کا ابھی مکی دور ہی مکمل نہیں ہوا ؟ تبلیغی جماعت کے ارکان جہاد سے کیوں جی چراتے ہیں؟ حالانکہ ان کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔کشمیری ، فلسطینی ،عراقی ،افغانی مائیں بہنیں مدد کے لئے پکار رہی ہیں۔مسلمانوں کی عزت و ناموس لٹ رہی ہے اور یہ حضرات لوٹا،بستر اٹھائے تبلیغی مشن پرکیوں روانہ ہوتے ہیں حالانکہ یہ وقت ہتھیار اٹھانے کا ہے؟مسلمان مجاہد جہاں جاتا تھا وہاں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی کرتا تھا۔تبلیغ کا یہ طریقہ کیوں نہیں اپنایا جاتا؟ جہاد فرض ہے چاہے ناگوار گذرے “کتب علیکم القتال وھوکرہ لکم وعسی ان تکرھوا شیئا وھو خیر لکم وعسی ان تحبوا شیا وھو شر لکم وااللہ یعلم وانتم لا تعلمون (سورہ البقرہ 2 / 216)ترجمہ:۔ تم پر قتال فرض کیا گیا ہے حالانکہ وہ تمہیں ناگوار گذرتا ہے۔ہو سکتا ہے کہ ایک چیز کو تم ناگوار سمجھو اور وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور ہو سکتا ہے ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لئے بری ہو۔اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
صور ت مسئولہ میں فضائل اعمال حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب ؒ کی تالیف ہے یہ کتاب اردوزبان میں لکھی گئی ہےاس کتاب کے لکھنے کا مقصود یہ ہے کہ اعمال کے فضائل اور گناہ کے ارتکاب پر وعیدیں بیان کئے جائیں تاکہ لوگوں کے ذہن میں اعمال کی اہمیت اور گناہوں سےبچنے کا شعور پیدا ہو کہ لوگ اعمال کرنے لگ جائیں اورگناہوں سے اجتناب کرنے لگ جائیں ۔ اس کتاب کا مقصد احکام اور مسائل کو بیان کرنا نہیں ہے اس لیے کہ اس کتاب میں احکام ،مسائل کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ۔ جماعت دعوت تبلیغ کا مقصود چونکہ لوگوں کو اعمال پر لگانا اور گناہوں سے بچانے کی کوشش کرنا ہے ،احکام و مسائل بتا نا نہیں اس لیے وہ اپنےتعلیمی حلقوں میں اسی کتاب کو سامعین کے سامنے بیان کرتے ہیں۔رہاقرآن کریم ،صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس تو چونکہ ان کتابوں میں احکام ومسائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے درس کے لیے علم کی ضرورت ہے یہ ہر تبلیغی کارکن کے پاس نہیں اور نہ ہی جماعت تبلیغ کا مقصود احکام کا بیان ہے بلکہ فضائل سن کر احکام سیکھنے کے لیے علماء کرام کی طرف رجوع کا مشورہ دیتے ہیں اس لیے اپنی مجلسوں میں ان کتابوں کادرس نہیں دیتے۔ دوم یہ کہ فضائل اعمال نامی کتاب میں جوفضائل بیان ہوئےہیں وہ قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث رسول جو مختلف کتابوں مثلاً بخاری ،مسلم،ابوداؤد وغیرہ میں موجود ہیں ،ان سے لیے گئے ہیں تو یہ قرآن اور حدیث سے ہٹ کر تو نہیں۔ 2۔بیرونی یا اندرونی جماعتیں جو تبلیغ دین کا کام کرتی ہیں یہ جماعتیں اپنے خرچے اور اپنے وسائل پرچلتی ہیں کسی سے تعاون نہیں یہی معاملہ اجتماع کا ہے ۔ مسلمان باہمی تعاون سے اس نظام کو سنبھالتے ہیں اور اس کے اخراجات اٹھاتے ہیں۔ 3۔جیسے پہلے بتایا گیا ہے کہ اس جماعت کا مقصد ثواب کے کاموں کی ترغیب اور گناہ کے کاموں سےبچنے کی تلقین ہے ،درس وتدریس ،تعلیم تعلم نہیں ،اس لیے یہ سوال بے محل ہے ،ہاں اس جماعت کے ساتھ جڑجانے سے علم دین کے حصول کا جذبہ اس میں پیدا ہوتاہے ،اہلِ علم سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے دین کے بارے میں کافی حد تک معلومات ہوجاتی ہیں باقی قرآن و حدیث کا سمجھنا انسان کے اپنے فہم و فراست پر مبنی ہے اگر انسان علم دین کے حصول میں لگ جائے ،صاحبِ فہم و فراست ہو اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ہو تو وہ بہت جلد قرآن و حدیث کو سمجھنے لگ جاتا ہے اس کے لیے کوئی وقت یا زمانہ متعین نہیں ۔ 4۔اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ۔ 5۔"فضائل اعمال"چونکہ اردوزبان جاننے والوں کے لیے لکھی گئی ہے اس میں احادیث کا ترجمہ لکھا گیاہے جبکہ "ریاض الصالحین"عربی زبان میں سے ہے اور اہلِ عرب عربی زبان کو آسانی سے سمجھتے ہیں اور دونوں کتابوں میں اعمال کے فضائل اور معاصی کے ارتکاب پر وعیدوں کا تذکرہ ہے ،اس لیے اہلِ عرب کو "ریاض الصالحین "اور اہل عجم کو" فضائل اعمال" سے تعلیم دی جاتی ہے۔ 6۔یہ تو امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرے کوئی کرنا چاہے تو کسی کی طرف سے پابندی نہیں۔ 7۔ "تبلیغی جماعت"یا دیوبند مکتبہ ٔ فکر کوئی فرقہ نہیں ہے ،اہل سنت والجماعت ہے جو کہ اہل حق کی جماعت ہے ،دین کی تبلیغ وترویج اپنی ذمہ داری سمجھتےہیں اسی پر عمل پیرا ہیں ۔ 8۔آج تک انہوں نے نہ قرآن کریم کے سیکھنےسے روکا ہے اور نہ ہی اس کے ترجمہ وتفسیر سے بلکہ جماعت دعوت و تبلیغ میں جڑنے سے قرآن کریم کے سیکھنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے ۔علم دین کے احکا م و مسائل سے تعلق پیدا ہوجاتا ہے ،پھرقرآن کریم ،احادیث اورت احکام و مسائل سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 9۔ کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ سب ٹھیک ہے ،اگر یہ کہتے تو پھر دعوت و تبلیغ کا کام کیوں کرتے ،لوگوں کو برائیوں سے نکا ل کر خیرو بھلائی کی طرف کیوں لاتے ، ہاں دین کی طرف راغب کرنے میں وہ اپنی حکمت عملی کے تحت میانہ روی اختیار کرتے رہتے ہیں ۔ 10۔اس جماعت نے کسی کو منع نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کا یہ نظریہ ہے ۔کتنے افراد ایسے ہوں گے جو جہاد کے شعبے سے وابستہ ہوں گے ۔ دوم یہ کہ دین کے کئی شعبے ہیں تدریس ،تبلیغ ،جہاد وغیرہ ہرشعبہ اپنی جگہ صحیح ہے ۔ہر شعبہ کا اپنا کام ہوتاہے ،نہ تمام افراد تدریس سے وابستہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی دعوت و تبلیغ سے اور نہ ہی جہاد سے لہٰذا یہ کہنا کہ جماعت دعوت و تبلیغ نے کوئی جماعت جہاد کے لیے روانہ نہیں کی ایک غیر معقول بات ہے۔ 11۔ اس کا جواب ہو گیا ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143101200464
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن