بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغی جماعت کا پیدل تشکیل میں قصر یا اتمام کا حکم


سوال

ہماری جماعت کی پیدل چلہ کی تشکیل ہوئی جوکہ تقریباً 15 سے 20 کلومیٹر کے فاصلے کے درمیان ہے ۔ جب ہم اپنے تشکیل والے مقام پر پہنچے تو ہم  نےاس علاقے کے ایک مفتی صاحب سے نماز کے متعلق پوچھا کہ ہم نماز قصر ادا کریں یا اتمام کریں ؟ جس پر اس مفتی صاحب نے کہا کہ اتمام کریں ( مکمل نماز ادا کریں )، اس کے بعد ہم ایک اور مسجد و مدرسے میں گئے تو وہاں کے مفتی صاحب نے کہا کہ آپ نماز قصر ادا کریں اس بارے میں جو پہلے مفتی صاحب نے بتایا تھا اس کی وضاحت فرما دیں اور جو دوسرے مفتی صاحب نے بتایا ہے اس کی  بھی وضاحت فرما دیں اور ہم نماز قصر ادا کریں یا اتمام کریں ۔؟

جواب

 صورت ِ مسئولہ میں   اگر آپ کی جماعت  کی پيدل تشکیل کسی ایک  شہر یا بڑے گاؤں یا بستی  میں 15 دن یا اس سے زیادہ کے لیے ہو اور وہیں کی کئی مساجد میں جانا  ہو تو اس شہر/بستی میں  جماعت  كے افراد مقیم کہلائيں گے اور  پوری نماز پڑھیں گے خواہ وہاں کی کسی بھی مسجد میں چلی جائيں۔

اور اگر کئی بستیوں میں تشکیل ہو اور ہر تین دن بعد یا  کچھ دن (جو پندرہ دن سے کم ہوں) بعد بستی تبدیل کرکے دوسری بستی یا گاؤں میں جانا پڑتا ہو جس کا نام وغیرہ بھی الگ ہو  اور مقامی لوگوں کے ہاں بھی وہ بستی بالکل علیحدہ شمار ہوتی ہو تو  اس صورت میں چوں کہ جماعت  کی اقامت ایک جگہ پر 15 دن کی نہیں ہے؛ اس لیے جماعت كے لوگ  مسافر  ہو ں گے  اور قصر (سفر کی) نماز پڑھيں گے۔ البتہ اگر  کسی ایک ہی  بستی میں مكمل پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام ہو  تو اس بستی میں مقیم شمار ہو کر پوری نماز پڑھيں گے۔

لہذا  آپ  کی جس جگہ تشکیل ہوئی ہے وہاں  مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق  غور کرکے نماز اد ا کرلیں۔ باقی  دو مختلف مفتی صاحبان نے جن بنیاد پر آپ کی راہ نمائی کی ہے چوں کہ اس کا  سوال میں ذکر نہیں ہے؛ اس لیے اس   بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان ما يصير المسافر به مقيما: فالمسافر يصير مقيما بوجود الإقامة، والإقامة تثبت بأربعة أشياء: أحدها: صريح نية الإقامة وهو أن ينوي الإقامة خمسة عشر يوما في مكان واحد صالح للإقامة فلا بد من أربعة أشياء: نية الإقامة ونية مدة الإقامة، واتحاد المكان، وصلاحيته للإقامة.

(وأما) اتحاد المكان: فالشرط نية مدة الإقامة في مكان واحد؛ لأن الإقامة قرار والانتقال يضاده ولا بد من الانتقال في مكانين وإذا عرف هذا فنقول: إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما؛ لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر فقد وجد الشرط وهو نية كمال مدة الإقامة في مكان واحد فصار مقيما وإن كانا مصرين نحو مكة ومنى أو الكوفة والحيرة أو قريتين، أو أحدهما مصر والآخر قرية لا يصير مقيما؛ لأنهما مكانان متباينان حقيقة وحكما، ألا ترى أنه لو خرج إليه المسافر يقصر فلم يوجد الشرط وهو نية الإقامة في موضع واحد خمسة عشر يوما."

(1/ 98، كتاب الصلاه، فصل ما يصير المسافر به مقيما، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية."

(1/ 139، کتاب الصلوٰۃ،الباب الخامس عشر في صلاة المسافر، ط: رشیدیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں