بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغی جماعت کو مسجد میں نہ چھوڑنے کاحکم


سوال

ہمارے علاقے میں بعض مساجد کے ائمہ ایسے ہیں کہ وہ اپنے مساجد میں تبلیغی جماعت کے احباب کو نہیں چھوڑتے ،دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ تبلیغ صرف علماء کاکام ہےاور کہتے ہیں   کہ آپ لوگ فساد پھیلارہے ہیں، مزید یہ کہ فاتحہ یا ختم وغیرہ کی مجالس میں اگر جماعت والے شریک ہوجائے تویہ اُن کی خوب تذلیل کرتےہیں، بعض کہتے ہیں کہ تبلیغی مشورہ مسجد میں جائز نہیں مطلب یہ ہیکہ تبلیغی جماعت کی ہر طرح سے مخالفت کرتے ہیں لہذا اب آپ جناب سے سوال یہ ہے کہ کیا ان کی یہ باتیں درست ہیں؟ اور بحیثیت ایک عالم دین کے ہمیں کیا حکمت عملی اپنانی چاہئے؟ 

جواب

تبلیغی جماعت ہمارے اکابرین کی جماعت ہے ،جس سے اللہ تعالٰی اس پُر فتن دور میں اپنی دین  کی بہت بڑی خدمت  لے رہے ہیں ، تبلیغی جماعت ایک دوسرے کو  نیکی کا کہنے ،برائی سے منع کرنے اور امت کو دعوت دینے کے لیے اپنے گھراور بیوی بچوں کوچھوڑکراللہ کی راہ میں نکلنےاورگلی،کوچوں،محلوں  اور بازاروں میں گشت کرنے جیسے مشقت بھرے اعمال کرکے دین اسلام کی بہت بڑی خدمت سر انجام  دیتی ہے  اور اس جماعت کوہمارے تمام اکابرین کی  سرپرستی اورتائید حاصل ہے، لہٰذا تبلیغی جماعت والوں كو مسجد سے نكالنايااُن  کے بارے میں یہ کہناکہ یہ فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں ،یا اُن کی تذلیل کرنا،یایہ کہناکہ تبلیغ صرف علماء کا کام ہے ،کسی طرح  درست نہیں ہے،اگرتبلیغی  جماعت کےکسی ایک فرد یا کئی افراد میں کوئی خامی يا کوئی غلطی پائی جاتی ہوتو اُس کی وجہ سے پوری جماعت کے مخالف ہونے اور پوری جماعت کو غلط کہنے کے بجائے اُن بعض افراد کوطریقے سے سمجھانا چاہیے ، نیز تبلیغی جماعت والوں کامسجد میں مشورہ کرناجائز ہے،بشرط یہ کہ مسجد کاادب ملحوظ  رکھتے ہوئے  بلاشور وشغب ہو اور نمازیوں کی نماز میں اس سے خلل واقع نہ ہوتاہو ،  یہ کہناکہ مسجد میں تبلیغی مشورہ کرناجائز نہیں غلط ہے۔

سائل کو چاہیےکہ وہ کسی کے ساتھ الجھنے کے بجائے ،اپنے کام میں مگن رہیں،جو ائمہ مخالفت کرتے ہیں ایسے ائمۂ کرام کی تبلیغی جماعت والوں کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں وہ اپنے عمل وکردار سے دور کردی جائیں  اوراگر اُن ائمہ اکااشکال بعض تبلیغی احباب کی شدت پسندی یاغلو کی وجہ سے ہوتواُن ساتھیوں کو اکابرکے طرز پر کام کرنے کی ترغیب دی جائےاور اعتدال پسندی کے ساتھ دوسروں کی دینی خدمات کواہمیت دیتے ہوئے اپنے کام میں مشغول رہیں۔

ارشادِ باری تعالٰی ہے:

"{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ‌‌}." [فصلت: 33]

ترجمہ: "اور اس سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جولوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور ( خود بھی ) نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں سے ہوں ۔"

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"يقول تعالى: {ولتكن منكم أمة} أي: منتصبة للقيام بأمر الله، في الدعوة إلى الخير، والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر {وأولئك هم المفلحون} قال الضحاك: هم خاصة الصحابة وخاصة الرواة، يعني: المجاهدين والعلماء،وقال أبو جعفر الباقر: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم: {ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير} ثم قال: "الخير اتباع القرآن وسنتي" رواه ابن مردويه،والمقصود من هذه الآية أن تكون فرقة من الأمة متصدية لهذا الشأن، وإن كان ذلك واجبا على كل فرد من الأمة بحسبه، كما ثبت في صحيح مسلم عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان". وفي رواية: "وليس وراء ذلك من الإيمان حبة خردل".وقال الإمام أحمد: حدثنا سليمان الهاشمي، أخبرنا إسماعيل بن جعفر، أخبرني عمرو بن أبي عمرو، عن عبد الله بن عبد الرحمن الأشهلي، عن حذيفة بن اليمان، أن النبي  صلى الله عليه وسلم قال: "والذي نفسي بيده لتأمرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر، أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم عقابا من عنده، ثم لتدعنه فلا يستجيب لكم"،ورواه الترمذي، وابن ماجه، من حديث عمرو بن أبي عمرو، به وقال الترمذي: حسن . والأحاديث في هذا الباب كثيرة مع الآيات الكريمة."

(سورةالنساء، الآية: 104، 91/2، ط: دار طيبة للنشر والتوزيع)

فتاوٰی محمود یہ میں ہے:

" تبلیغی جماعت تو مروجہ طریقہ پر کوئی با قاعدہ جماعت نہیں ہے، نہ اس کا کوئی ممبر سازی کا فارم ہے، نہ فیس ہے ،نہ سیکٹری ، نہ رجسٹر میں اندراج ، بلکہ اپنے دین کی پختگی اور مشق کیلئے کچھ باتوں پر عمل کرتے ہیں ، ان کو یاد کرنے ،ان کو پھیلانے اور اپنی عملی زندگی میں جاری کرنے کیلئے حسبِ توفیق وقت لگا کر باہر جاتے ہیں ،تین دن ،ا یک هفتہ دس دن ، ایک چلہ دو چلہ تین چلہ سات چلہ حتى کہ بعض آدمیوں نے اپنی پوری زندگی اسی کام میں لگا دی ہے، دوسری کسی جماعت سے لڑائی اکھاڑ پچھاڑ سے بچتے ہیں۔ جو چھ باتیں ان لوگوں نے اختیار کی ہیں وہ سب قرآن پاک اور حدیث شریف سے ثابت ہیں ،ان میں کسی کا اختلاف ہی نہیں ،اگر کوئی شخص کم علمی اور نا تجربہ کاری کی بناء کوئی غلطی کرتا ہے تو وه اس کی ذاتی غلطی ہے ، اس کو اصول نہیں قرار دیا جا سکتا ہے، ایسے کو دوسرے لوگ تنبیہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے ، آئنده ايسا نہ کیا جائے۔"

(کتاب العقائد ، باب الفرق ، ما يتعلق بالمودوديۃ ،155٫156/2 ، ط: اداره الفاروق)

وفیہ ایضًا:

"بلاشور وشغب کے اس طرح بیٹھ کر مشورہ کرسکتے ہیں کہ مسجد کاادب کاملحوظ رہےاور کسی کی نماز میں خلل نہ آئے۔۔۔۔۔الخ۔"

(بقیۃ کتاب الوقف ، باب آداب المسجد، 200/15، ط:  ادارہ الفاروق)

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"وفي صلاة الجلابي: الكلام المباح من حديث الدنيا يجوز في المساجد، وإن كان الأولى أن يشتغل بذكر الله تعالى."

(كتاب الكراهية، الباب الخامس في آداب المسجد، 321/5، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"قال في المصفى: الجلوس في المسجد للحديث مأذون شرعا لأن أهل الصفة كانوا يلازمون المسجد وكانوا ينامون، ويتحدثون، ولهذا لا يحل لأحد منعه."

(كتاب الصلاة ، باب مايفسد الصلاة، ومايكره فيها، 662/1، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں