بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغ والوں کا چار ماہ کے لیے مجبور کرنا


سوال

١۔ تبلیغی جماعت والے زبردستی چار ماہ کی تشکیل کرتے ہیں،  کیا یہ صحیح ہے ؟

٢۔ جب تبلیغی جماعت والے چار ماہ کی تشکیل کرنے آتے ہیں اور ہم انہیں عذر بتاتے ہیں تو وہ یہی کہتے ہیں کہ اللہ پورا کرے گا ، ہم کوئی بھی عذر بتاتے ہیں تو جماعت  والے  بھائی ایک ہی بات بولتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کرنے والا ہے تم چار ماہ میں نکل جاؤ،  کیا  یہ  کہنا  ان  کے  لیے  صحیح  ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ تبلیغ میں وقت لگانا اصلاح  اور دین کی دعوت کے احساس کو اجاگر کرنے کے لیے بہت مفید ہے لیکن اس میں افراد کی نوعیت اور نجی معاملات کا خیال کرنا چاہیےمصلحت کے ساتھ ترغیب دینی چاہیے  اگر کوئی شخص عذر پیش کرتا ہے تو اس پر بلاوجہ جبر نہیں کرنا چاہیے  عذر پیش کرنے کے وقت یہ کہنا کہ سب کچھ اللہ کرنے والا ہے تم  چار  ماہ میں نکل جاؤ تو  یہ  "توکل"  کے خلاف ہے؛  اس لیے کہ توکل کہتے ہیں اسباب اختیار کرنے کے بعد اللہ پر اپنا معاملہ چھوڑ دینا؛  لہذا اگر کوئی شخص کسی عذر کی بناپر وقت نہیں لگا سکتا تو اس کو نکلنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"وأصل ‌التوكل من الوكول، يقال: وكل أمره إلى فلان أي التجأ إليه واعتمد عليه، والتوكل تفويض الأمر إلى الله وقطع النظر عن الأسباب، وليس ‌التوكل ترك السبب والاعتماد على ما يجيء من المخلوقين لأن ذلك قد يجر إلى ضد ما يراد من ‌التوكل، وقد سئل الإمام أحمد رحمه الله، عن رجل جلس في بيته أو في مسجد وقال: لا أعمل شيئا حتى يأتيني رزقي. فقال: هذا رجل جهل العلم، فقد قال النبي صلى الله عليه وسلم: (إن الله جعل رزقي تحت ظل رمحي) ، وقال: لو توكلتم على الله حق توكله لرزقكم كما يرزق الطير، تغدو خماصا وتروح بطانا، فذكر أنها تغدو وتروح في طلب الرزق، قال: وكانت الصحابة رضي الله تعالى عنهم، يتجرون ويعملون في تخيلهم والقدوة بهم."

(کتاب الرقاق جلد ۲۳ ص: ۶۸ ، ۶۹ ط: داراحیاء التراث العربي)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144403102023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں