بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغی امور میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے امام کو ہٹانا


سوال

میں مہاراشٹر انڈیا میں رشیدیہ مسجد میں پچھلے تین سال سے امامت کر رہا تھا،  20 مئی2021 کو مجھ سے کہا گیا کہ ایک جون 2021 سے مت آنا ، ہم کسی اور کو امامت کے لیے رکھنا چاہتے ہیں اور مجھ کو نکالنے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی،  موجودہ امام نے  مولوی زید کو سابق امام کو نکالنے کی وجہ ہمارے ساتھیوں کے پاس یہ بتائی ہے کہ میں مسجد وارجماعت میں نہیں بیٹھتا تھا،  گشت میں ساتھ نہیں دیتا تھا،  تعلیم میں ساتھ نہیں دیتا تھا اور اسی طرح دیگر امور میں ساتھ نہیں دیتا تھا ۔

میرا مفتیانِ  کرام سے یہ سوال ہے کہ

  1. کیا ان بنیادوں پر کسی امام کو نکالنا جائز و درست ہے؟
  2. کیا یہ تمام امور شرعی وجوہات میں داخل ہیں؟
  3. اور کیا ان کے نہ کرنے پر امام کو نکالنا جائز و درست ہے؟
  4. کیا امام کو بغیر کسی شرعی عذر کے امامت سے نکالنا جائز و درست ہے؟

جواب

  1. بصدقِ واقعہ صورتِ  مسئولہ میں محض تبلیغی امور میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے امام موصوف کو معزول کرکے دوسرے شخص کو امام مقرر کرنا شرعًا درست نہیں۔
  2. مروجہ تبلیغی امور سے منسلک ہونا  مباح عمل ہے، فرض، واجب، یا مستحب نہیں، اور نہ ہی امامِ مسجد کے فرائضِ  امامت میں  داخل ہے، امام کا جمعہ کے دن وعظ کرنا، درسِ قرآن اور  درسِ حدیث دینا یا دیگر تعلیمی امور بجا لانا بھی دعوت و تبلیغ کے امور  ہی  ہیں، اسے دعوت و تبلیغ سے الگ سمجھ کر صرف مسجد کی تعلیم اور گشت میں شرکت کرنے کو ہی تبلیغی امور تک محدود رکھنا درست نہیں۔
  3. مروجہ تبلیغی امور نہ کرنے والے شخص کو صرف اس بنیاد پر  امامت سے معزول کرنا جائز نہیں۔
  4. امام کو بغیر کسی شرعی عذر کے امامت سے نکالنا جائز  نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے:

’(الباني) للمسجد (أولى) من القوم (بنصب الإمام والمؤذن في المختار إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه) الباني.

(قوله: الباني أولى) وكذا ولده وعشيرته أولى من غيرهم، أشباه (قوله: بنصب الإمام والمؤذن) أما في العمارة فنقل في أنفع الوسائل: أن الباني أولى (قوله: إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه)؛ لأن منفعة ذلك ترجع إليهم، أنفع الوسائل‘‘.

( كتاب الوقف، مطلب فيمن باع دارا ثم ادعى أنها وقف، ٤ / ٤٣٠، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

’’وفيها: للواقف عزل الناظر مطلقاً، به يفتى، ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولاهما.

(قوله: للواقف عزل الناظر مطلقاً) أي سواء كان بجنحة أو لا، وسواء كان شرط له العزل أو لا، وهذا عند أبي يوسف؛ لأنه وكيل عنه، وخالفه محمد كما في البحر: أي لأنه وكيل الفقراء عنده، وأما عزل القاضي للناظر فقدمنا الكلام عليه عند قوله: وينزع لو غير مأمون إلخ (قوله: به يفتى) والذي في التجنيس: والفتوى على قول محمد أي بعدم العزل عند عدم الشرط، وجزم به في تصحيح القدوري العلامة قاسم، وكذلك المؤلف أي ابن نجيم في رسائله، وهو من باب الاختلاف في الاختيار. اهـ. بيري أي فيه اختلاف التصحيح. قلت: وهو مبني على الاختلاف في اشتراط التسليم إلى المتولي، فإنه شرط عن محمد، فلا تبقى للواقف ولاية إلا بالشرط، وغير شرط عند أبي يوسف فتبقى ولايته، فاختلاف التصحيح هنا مبني على اختلافه هناك. مطلب في عزل الواقف المدرس والإمام وعزل الناظر نفسه.

(قوله: ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولا هما) أقول: وقع التصريح بذلك في حق الإمام والمؤذن، ولا ريب أن المدرس كذلك بلا فرق. ففي لسان الحكام عن الخانية: إذا عرض للإمام والمؤذن عذر منعه من المباشرة ستة أشهر للمتولي أن يعزله ويولي غيره، وتقدم ما يدل على جواز عزله إذا مضى شهر بيري. أقول: إن هذا العزل لسبب مقتض والكلام عند عدمه ط. قلت: وسيذكر الشارح عن المؤيدة التصريح بالجواز لو غيره أصلح، ويأتي تمام الكلام عليه، وقدمنا عن البحر حكم عزل القاضي المدرس ونحوه، وهو أنه لا يجوز إلا بجنحة وعدم أهلية.‘‘

( كتاب الوقف، مطلب التولية خارجة عن حكم سائر الشرائط، ٤ / ٤٢٧ - ٤٢٨، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

’’[مطلب لا يصح عزل صاحب وظيفة بلا جنحة أو عدم أهلية] 

[تنبيه] قال في البحر واستفيد من عدم صحة عزل الناظر بلا جنحة عدمها لصاحب وظيفة في وقف بغير جنحة وعدم أهلية واستدل على ذلك بمسألة غيبة المتعلم، من أنه لا تؤخذ حجرته ووظيفته على حالها إذا كانت غيبته ثلاثة أشهر، فهذا مع الغيبة فكيف مع الحضرة والمباشرة وستأتي مسألة الغيبة وحكم الاستنابة في الوظائف قبيل قول المصنف ولاية نصف القيم إلى الواقف، وفي آخر الفن الثالث من الأشباه إذا ولى السلطان مدرسا ليس بأهل لم تصح توليته؛ لأن فعله مقيد بالمصلحة خصوصا إن كان المقرر عن مدرس أهلا فإن الأهل لم ينعزل وصرح البزازي في الصلح، بأن السلطان إذا أعطى غير المستحق فقد ظلم مرتين بمنع المستحق وأعطاه غير المستحق اهـ ملخصًا.‘‘

( كتاب الوقف، مطلب في عزل الناظر، ٤ / ٣٨٢، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201129

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں