بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغی اجتماعات و مراکز میں اسپیکر پر نماز نہ پڑھانے كا حكم


سوال

اکثر لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ تبلیغی اجتماعات میں اور مراکز میں لاوڈ اسپیکر پر نماز کیوں نہیں ہوتی   حالانکہ بیان لاوڈ اسپیکر پر ہوتا ہے ؟

جواب

اسپیکر پر نماز پڑھانا ضرورت کے مواقع پر ( مثلاً: نمازیوں کی کثرت اور نمازیوں تک امام کی آواز نہ پہنچنے کی بناپر) جمہور علماء کے نزدیک بلا کراہت جائز ہے، اسپیکر کی ایجاد کے ابتدائی دور  میں اہلِ علم کی آراء  نماز میں اس کے استعمال کے حوالے سے مختلف تھیں کہ آیا اس کی آواز کی بنیاد پر مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟ اور اس اختلاف کا منشا یہ تھا  کہ خود سائنس دانوں کا اس نکتے پر اختلاف تھا کہ آیا اسپیکر سے سنائی دینے والی آواز قائل کی اصل آواز ہی ہے یا اس کی صدائے بازگشت؟ دونوں آراء تھیں، نتیجتاً اہلِ علم میں بھی دونوں آراء سامنے آئیں، اور اسی بنا پر بعض اہلِ علم نے احتیاطاً فرض نماز میں اس کے استعمال کو منع کیا ، لیکن بعد میں تقریباً تمام اہلِ علم اس کے استعمال کے جواز پر متفق ہوگئے۔

تبلیغ سے وابستہ بزرگان وعلماء بھی لاؤڈ اسپیکر میں نماز کے جواز کے قائل ہیں، باقی ان کا نماز کے دوران لاؤڈ اسپیکر استعمال نہ کرنا عدمِ جواز کی بنیاد پر نہیں، بلکہ مرکز کے بعض بزرگوں نے خاص ذوق کی بنا پر اس سلسلے کو دو وجہ سے برقرار رکھا ہے:

1۔ جب بعض اکابر علماء نے نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے احتیاطاً منع کیا تھا اور وہ اسی رائے کے ساتھ دنیا سے تشریف لے گئے، تو آج بھی احتیاط پر عمل کرتے ہوئے اس کا استعمال کم سے کم کیا جائے، لہٰذا نماز میں چوں کہ اقتدا کی صحت وعدمِ صحت کا مسئلہ ہے، اس لیے  نماز بغیر اسپیکر  کے پڑھائی جائے، جب کہ اذان و اقامت میں چوں کہ ایسی کوئی وجہ نہیں  اس لیے وہ اسپیکر پر دی جاتی ہیں۔

2۔ قرونِ اولیٰ میں جب مجمع زیادہ ہوتاتھا تو نماز میں مکبرین کے ذریعے آواز پہنچائی جاتی تھی، نماز جیسی عظیم عبادت کی ادائیگی کی ایک مثالی صورت جو قرونِ اولیٰ میں مکبرین کا نظم قائم کرکے اختیار کی گئی، اس ترقی یافتہ دور میں قرونِ اولیٰ کی اس سنت کا احیاء اور نئی نسل کو سادہ انداز میں نماز کے ان احکامات کا عملی صورت میں مشاہدہ کرواکر علم منتقل کرنا ،  اس کا ایک مقصد ہے، اگر تبلیغ سے وابستہ حضرات بھی یہ سلسلہ ختم کردیں تو شاید دورِ جدید میں دورِ قدیم کی اس سنت کی کوئی صورت باقی نہ رہے۔

باقی بزرگانِ تبلیغ نماز میں بھی لاؤڈ اسپیکر کے جواز کے قائل ہیں؛ اسی لیے بعض اوقات مجمع بہت زیادہ ہونے پر بوقتِ ضرورت لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مشاہدے میں آجاتاہے۔ 

سنن أبي داود  میں ہے:

عن ابن عباس، قال: كان ‌يعلم ‌انقضاء صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالتكبير."

(‌‌كتاب الصلاة، باب التكبير بعد الصلاة، ج:1، ص:263، ط:المكتبة العصرية صيدا بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي حاشية الحموي عن الإمام الشعراني: ‌أجمع ‌العلماء سلفا وخلفا على استحباب ذكر الجماعة في المساجد وغيرها إلا أن يشوش جهرهم على نائم أو مصل أو قارئ إلخ."

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، مطلب في رفع الصوت بالذكر، ج:1، ص:660، ط:سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409100292

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں