بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغی جماعت سے وابستگی کا حکم


سوال

١۔ کیا تبلیغی جماعت میں نہ جانے سے گناہ ہوتا ہے؟

٢۔ کیا تبلیغی جماعت میں اجتماعی عمل کو چھوڑنے پر گناہ ہوتا ہے؟

٣۔ کیا تبلیغی جماعت میں سے آدھے وقت میں واپس چلے آنے سے گناہ ہوتا ہے ؟

جواب

1۔ تبلیغ دین کا کام فرض کفایہ ہے، یعنی امت چنیدہ افراد اگر اس فریضہ کی ادائیگی میں مشغول ہوں، تو بقیہ تمام افراد سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا، البتہ اگر امت محمدیہ ساری کی ساری تبلیغ دین کا کام ترک کردے، تو ساری امت گناہ گار ہوگی، تاہم مروجہ تبلیغ  جماعت  سے منسلک ہونا نہ فرض ہے، اور  نہ ہی واجب ہے، البتہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق تبلیغ کا کام مفید ہے،  بہر صورت مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک نہ ہونے سے انسان گناہگار نہ ہوگا۔

2۔ مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کی تربیت کے لیے بزرگوں نے جو نصاب مقرر کیا ہے، وہ ان افراد کے لیے  مفید  تر ہے،  تاہم یہ معمولات توقیفی و لازمی نہیں ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرنے پر آدمی گناہگارقرار پائے،یعنی مذکورہ جماعت سے وابستہ افراد کے لیے  مذکورہ ترتیب پر چلنا اصلاح نفس کے لیے مفید ہوگا،  اور نہ چلنے کی صورت میں معتد بہ استفادہ نہ ہوسکے گا۔

3۔ آدمی گناہگار  اگرچہ  نہ ہوگا، تاہم ایسا کرنا خاطر خواہ فائدہ مند نہ ہوگا۔

امداد المسائل (مفتی عبدالشکور ترمذیؒ) میں ہے:

"حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمہ اللہ کی تبلیغی تحریک میں تعلیم وتعلم اوراصلاح وصلاح کے دونوں پہلوؤں کی رعایت ہے ، اگر حدود شرعیہ اورشرائط  آداب کو ملحوظ رکھ کر اس میں حصہ لیا جائے تو منجملہ دوسرے طرق تبلیغ کے یہ طریقہ بھی مفید اورمستحسن ہے اوراس کے ثمرات وفوائد ظاہر وباہر ہیں لیکن تعلیم وتعلم یااصلاحِ اخلاق کے لئے ہر مسلمان پر گھر سے باہر نکلنا اورسفر کرنا فرض نہیں ہے، بس اس قدر ضروری اورفرض ہے کہ دینی ضروری علم حاصل کرے اور اپنے اخلاق کی درستگی کی کوشش میں لگارہے ،اس کا جوطریقہ بھی میسر ہو اس پر عمل کرنے سے یہ فرض ادا ہوجائے گا ،فرائض کا علم حاصل کرنا فرض ہے اورواجبات کا واجب اورسنن ومستحبات کا سنت ومستحب ہوگا البتہ جس شخص کے لئے دوسرا طریقہ اپنی اپنی دینی ضروریات کے سیکھنے کا میسر نہ ہوسکے ،اس کے لئے اسی طریقہ کو فرائض وواجبات کی حدتک سیکھنے کے لئے ضروری قرار دیا جائے گا اورباقی کے لئے مستحب وسنت اورہر مسلمان پر بقدر اس کے علم کے لازم ہے کہ وہ اپنے توابع اورمتعلقین ِاہل وعیال کو تبلیغ ِدین کرتا رہے اوراحکام ِشریعت بتلاتا اوراس پر عمل کی تاکید کرتا رہے اورہر وقت ’’کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ‘‘کو پیش ِ نظر رکھ کر اپنی مسئولیت کا خیال رکھے اپنے گردوپیش اوراپنے ماحول میں بقدر استطاعت احکام دین کی تبلیغ اوراصلاح اخلاق کی سعی اورکوشش میں لگارہے ،اس مذکورہ خاص شکل کے علاوہ تبلیغ کی یہ خاص صورت نہ فرض عین ہے ،اورنہ ہی فرض کفایہ، البتہ قواعد ِشرعیہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ ایک مستحب اور مستحسن عمل ہے ،جو شخص فکرِ معاش سے فارغ ہوکر اورحقوقِ اہل وعیال کا انتظام کرکے اس پر عمل کرنا چاہے وہ ایک مستحب اورمستحسن عمل کرتا ہے ،جو نہیں کرتا اس پر شرعاً کوئی مؤاخذہ نہیں ہے، بشرطیکہ دوسرے طریقہ سے وہ اس فرض کی ادائیگی میں ساعی اورکوشاںرہتا ہے ۔"

(تبلیغی جماعت سے متعلق سوالات وجوابات، ص: ١٠٨ ، ط:حقانیہ ساہیوال)

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ تبلیغی جماعت کے طریقہ کار سے متعلق لکھتے ہیں:

"دین کی دعوت و تبلیغ تو اعلیٰ درجے کی عبادت ہے، اور قرآنِ کریم اور حدیثِ نبوی میں جابجا اس کی تاکید موجود ہے، دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے جماعتِ تبلیغ وقت فارغ کرنے کا جو مطالبہ کرتی ہے، وہ بھی کوئی نئی ایجاد نہیں، بلکہ ہمیشہ سے مسلمان اس کے لیے وقت فارغ کرتے رہے ہیں، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تبلیغی وفود بھیجنا ثابت ہے۔ رہی سہ روزہ، ایک چلہ، تین چلہ اورسات چلہ کی تخصیص، تو یہ خود مقصود نہیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ مسلمان دین کے لیے وقت فارغ کرنے کے تدریجاً عادی ہوجائیں اوران کورفتہ رفتہ دین سے تعلق اور لگاؤ پیداہوجائے، پس جس طرح دینی مدارس میں نوسالہ، سات سالہ کورس (نصاب) تجویز کیا جاتا ہے، اور آج تک کسی کو اس کے بدعت ہونے کا وسوسہ بھی نہیں، اسی طرح تبلیغی اوقات کو بھی بدعت کہناصحیح نہیں۔"

( آپ کے مسائل اور ان کا حل، تبليغ دين، بعنوان: کیا موجودہ تبلیغی جماعت کا کورس بدعت ہے؟، ٨ / ٢٠٢، ط: مکتبہ لدھیانوی)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

" ولتکن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر وأولئك هم المفلحون."

(سورة آل عمران: ١٠٤)

ترجمہ:اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔

 التفسير المنير للزحيلي میں ہے:

"يأمر الله تعالى الأمة الإسلامية بأن يكون منها جماعة متخصصة بالدعوة إلى الخير والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، وأولئك الكمل هم المفلحون في الدنيا والآخرة. وتخصص هذه الفئة بما ذكر لا يمنع كون الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر واجبا على كل فرد من أفراد الأمة بحسبه، كما ثبت في صحيح مسلم عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطبع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان»۔" وفي رواية: وليس وراء ذلك الإيمان حبة خردل. وروى أحمد والترمذي وابن ماجه عن حذيفة بن اليمان رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والذي نفسي بيده لتأمرن بالمعروف، ولتنهون عن المنكر، أو ليوشكن الله أن يبعث عليكم، عقابا من عنده، ثم لتدعنه فلا يستجيب لكم»." 

(سورة آل عمران، الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وتأكيد النهي عن التفرق،  ٤ / ٣٣، ط: دار الفكر)

 أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

" قال الله تعالى: ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر قال أبوبكر قد حوت هذه الآية معنيين أحدهما وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر والآخر أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره لقوله تعالى ولتكن منكم أمة وحقيقته تقتضي البعض دون البعض فدل على أنه فرض على الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين ومن الناس من يقول هو فرض على كل أحد في نفسه ويجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله ولتكن منكم أمة مجازا كقوله تعالى ليغفر لكم من ذنوبكم ومعناه ذنوبكم والذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين كالجهاد وغسل الموتى وتكفينهم والصلاة عليهم ودفنهم ولو لا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به."

(آل عمران، باب فرض الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، مطلب: في أن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض كفاية، ٢ / ٣٧، ط: دار الكتب العلمية)

 شرح النووي على مسلم  میں ہے:

" وأما قوله صلى الله عليه وسلم فليغيره فهو أمر إيجاب بإجماع الأمة وقد تطابق على وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر الكتاب والسنة وإجماع الأمة وهو أيضًا من النصيحة التي هي الدين ... فقد أجمع المسلمون عليه ... ووجوبه بالشرع لا بالعقل ... والله أعلم ثم إن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض كفاية إذا قام به بعض الناس سقط الحرج عن الباقين وإذا تركه الجميع أثم كل من تمكن منه بلاعذر ولا خوف ثم إنه قد يتعين كما إذا كان في موضع لا يعلم به إلا هو أولا يتمكن من إزالته إلا هو وكمن يرى زوجته أو ولده أو غلامه على منكر أو تقصير في المعروف قال العلماء رضي الله عنهم ولا يسقط عن المكلف الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لكونه لا يفيد في ظنه بل يجب عليه فعله فإن الذكرى تنفع المؤمنين."

( كتاب الإيمان، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان ٢ / ٢٢، ط : دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102228

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں