بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تبلیغ میں جانے کےلیے زکوٰۃ کی رقم لینا


سوال

میں گھروں میں کلر کا کام کرتا ہوں، لیکن دو تین سال سے کام نہیں ہے، جسکی وجہ سے کچھ قرضہ ہوگیا ہے وہ بھی گھر کے لوگوں سے لیا ہوا ہے، میں تبلیغی جماعت میں چلہ اور چار ماہ کےلیے جاتا رہتا ہوں، اب میں سال اندرون کے لیے جانا چاہتا ہوں لیکن اخراجات نہیں ہیں ، تو ایک مسجد کے ساتھی جو تا جر  ہیں، وہ پورا خرچہ اور گھر کے لیے بھی خرچہ جو تقریبا 80,0000 سے زائد رقم ہے ،  زکوٰ ۃ کی مد میں دینا چاہتے ہیں،  

سوال یہ ہے کہ کیا میں اللہ کے راستے میں جانے کے لیے زکوٰ ۃ کی رقم لے سکتا ہوں؟ جبکہ میرے پاس اور میری بیوی کے پاس کو ئی سوناوغیرہ بھی  نہیں اور حالات  سے بیوی بھی پریشان ہے ، تو کیا جماعت کے خرچہ کے ساتھ  جو گھر کے اخراجات کےلیے وہ صاحب پیسے دے رہے ہیں  ، میں گھر خرچ کے لیے لے سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سیدبھی نہ ہو، تو وہ زکوٰۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے، لہذا صورت مسئولہ میں سائل  اگر مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مستحقِ زکوٰۃ  ہے اور مقروض بھی ہے ، تو وہ اپنے قرض کی ادائیگی اور اپنی ضروریات پوری کرنے کےلیے  زکوٰۃ لے سکتا ہے۔

  سائل چونکہ مقروض  ہے اور  قرض اتارنے  کی قدرت ہونے کے باوجود قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا  ظلم ہے، نیز  استطاعت کے باوجود اگر کوئی قرض نہ اتارے تو اندیشہ ہے کہ کہیں اس وعید  کا مستحق نہ بن جائے جس کے مطابق مقروض شہید بھی ہوجائے تو قرض کے وبال سے اسے خلاصی نہیں ملے گی، جب کہ شہید کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں، لہذا سائل پر لازم ہے کہ پہلے اپنے   قرضے کی ادائیگی کرے،مکمل قرضہ ادا کرنے کے بعد اگر رقم بچ جائے تو اسے دیگر امور میں استعمال کرے لیکن   چونکہ زکوٰۃ لوگوں کے مال کا میل کچیل ہے اس لیے اگر کوئی اور ضرورت نہ ہوتو محض تبلیغ میں جانے کے لیے کسی سے زکوٰۃ وصول کرنا بہتر نہیں ہے ، ایسی صورت میں سائل اپنے مقام پر رہتے ہوئے  محنت کرتا رہے جب اللہ تعالی اسباب پیدا فرمادے تب جماعت میں چلا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''۔

(کتاب الزکاة، باب المصرف، ج:1،ص:189، ط: رشیدیه) 

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ويكره الخروج إلى الغزو والحج لمن عليه الدين وإن لم يكن عنده مال ما لم يقض دينه إلا بإذن الغرماء، فإن كان بالدين كفيل إن كفل بإذن الغريم لايخرج إلا بإذنهما، وإن كفل بغير إذن الغريم لايخرج إلا بإذن الطالب وحده، وله أن يخرج بغير إذن الكفيل، كذا في فتاوى قاضي خان في المقطعات".

(کتاب المناسك،الباب الاول، ج: 1،ص: 221،ط:رشیدیه)

ردالمحتار میں ہے:

"مطلب في قولهم: يقدم حق العبد على حق الشرع. (قوله: لتقدم حق العبد) أي على حق الشرع لا تهاوناً بحق الشرع، بل لحاجة العبد وعدم حاجة الشرع ألا ترى أنه إذا اجتمعت الحدود، وفيها حق العبد يبدأ بحق العبد لما قلنا؛ ولأنه ما من شيء إلا ولله تعالى فيه حق، فلو قدم حق الشرع عند الاجتماع بطل حقوق العباد".

(رد المحتار،ج:2،ص:462، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں