میرا ایک دوست ہارٹ اٹیک کی وجہ سے فوت ہو گیا۔گھر چھٹی پر تھا،وہ آرمی میں حاضر سروس تھے، کیا ان کا شہید کا درجہ ہے؟
فقہاءِ کرام نے شہید کی دو قسمیں بیان کی ہیں: حقیقی اور حکمی۔
اور درحقیقت یہ دو قسمیں دنیاوی اَحکام کے اعتبار سے ہیں؛ چناں چہ ’’حقیقی شہید‘‘ وہ کہلاتا ہے جس پر شہید کے دنیاوی احکام لاگو ہوتے ہیں، یعنی اس کو غسل وکفن نہیں دیا جائے گا، اور جنازہ پڑھ کراُن ہی کپڑوں میں دفن کر دیا جائے جن میں شہید ہوا ہے، مثلاً اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والا، یا کسی کے ہاتھ ناحق قتل ہونے والا بشرطیکہ وہ بغیر علاج معالجہ اور وصیت وغیرہ اسی جگہ دم توڑجائے اور اس پر زخمی ہونے کے بعد دم توڑنے تک ایک نماز کا وقت نہ گزرا ہو۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ یہ قتلِ ناحق ایسا ہو کہ اصولًا اس کے قاتل پر قصاص واجب ہوتاہو، یعنی آلۂ قتل سے قصدًا قتل کیا ہو۔
اور ’’حکمی شہید‘‘ وہ کہلاتا ہے جس کے بارے میں احادیث میں شہادت کی بشارت وارد ہوئی ہو، ایسا شخص آخرت میں تو شہیدوں کی فہرست میں شمار کیا جائے گا، البتہ دنیا میں اس پر عام میتوں والے اَحکام جاری ہوں گے، یعنی اس کو غسل دیا جائے گا، اور کفن بھی دیا جائے گا۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر فوج کے کسی ملازم کا اپنے گھر پر طبعی موت سے انتقال ہوا ہے تو شرعاً اس کو شہید نہیں کہاجاسکتا ہے،البتہ احادیثِ مبارکہ میں جن لوگوں کے بارے میں شہادت کا مرتبہ ملنےکا ذکر ہے یا جن بیماریوں کا صریح ذکر ہے صرف ان کو یا ان سے ملتی جلتی تکلیف دہ بیماریوں سے مرنے والے کو شہید کہا جاسکتا ہے،لہٰذا اللہ تعالیٰ جل جلالہ سے امید ہے کہ اسلامی فوج کا جو سپاہی دل میں واپس اسلامی سرحدات کی حفاظت کے لیے جانے کا اور جذبۂ شہادت رکھتے ہوئے اگر چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھر پر دل کی بیماری کی وجہ سےانتقال ہوگیا تو اس کو شہادت کا ثواب عطافرمائیں گے۔
(مستفاد: احکام میت، ص:93، باب پنجم، شہید کی دوسری قسم، ط: اسلامی کتب خانہ)
حدیث شریف میں ہے:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَعُدُّونَ الشَّهِيدَ فِيكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، قَالَ: «إِنَّ شُهَدَاءَ أُمَّتِي إِذًا لَقَلِيلٌ»، قَالُوا: فَمَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الطَّاعُونِ فَهُوَ شَهِيدٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي الْبَطْنِ فَهُوَ شَهِيدٌ»."
(الصحيح لمسلم،كتاب الإمارة، باب بيان الشهداء، رقم الحديث: 165 - (1915)، ج:3، ص: 1521، الناشر: مطبعة عيسى البابي الحلبي)
الدر المختار میں ہے:
"وكل ذلك في الشهيد الكامل، وإلا فالمرتث شهيد الآخرة وكذا الجنب ونحوه، ومن قصد العدو فأصاب نفسه، والغريق والحريق والغريب والمهدوم عليه والمبطون والمطعون والنفساء والميت ليلة الجمعة وصاحب ذات الجنب ومن مات وهو يطلب العلم، وقد عدهم السيوطي نحو الثلاثين."
(الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الصلوة، باب الشهيد، 252/2، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101631
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن