بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تبرک بآثار الصالحین کا انکار درست نہیں ہے


سوال

عطا اللہ شاہ بُخاری کے نام سے منسوب جو خطبہ انٹرنیٹ پر گردش کر رہا ہے اُس کے بارے میں آپ نے بتایا کہ اس میں الفاظ درست نہیں ہیں،لیکن اُن میں غلط کیا ہے یہ نہیں بتایا، جن الفاظ پر اعتراض لگایا گیا ہے اُن کا ترجمہ بھی بتا دیں تا کہ بہتر سمجھ آ سکے۔

جواب

جس فتویٰ(144307102101) کی طرف سائل کا اشارہ ہےاس میں  غلطی کی نشاندہی بھی کی گئی ہے،جس کی تفصیل یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت ناصرف سلف صالحین کی استعمال کی ہوئی اشیاءسے تبرک حاصل کرنے کے جواز کے قائل ہیں،بلکہ اس کو مستحب کہتے ہیں،صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور تابعین و تبعِ تابعین  کا عمل بھی اس پر شاہد ہے،چناں چہ  روایات میں وارد ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے وضوء کے بچے ہوئے پانی کے ایسے حریص تھے کہ بعض صحابہ تو حضرت کا بچا ہوا پانی اپنے ہاتھوں وغیرہ پر مَل لیا کرتے تھے اور جن کو وہ میسر نہ ہوپاتا وہ اپنے ساتھیوں کے ہاتھ پر اس مبارک پانی کی تری کوہی غنیمت سمجھتے ہوئےلے لیا کرتے تھے،اسی طرح روایات میں یہ بھی وارد ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال کیے ہوئے کپڑوں کو شفاء اور تبرک کی نیت سے پہنا کرتے تھے،اسی طرح ایک روایت میں یہ بھی وارد ہے کہ ایک صحابی جن کے لیے بعض اعذار کی بناء پر مسجد آنا مشکل تھا،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اپنے گھر آکرنماز پڑھنے کی درخواست کی،تاکہ وہ حضرت کی نماز کی جگہ کو ہی اپنا مصلیٰ بنالیں،یہی حال زمزم کا بھی ہے،کہ اس کو بھی بابرکت پانی قرار دیا گیا ہے کیوں کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جوٹھا شامل ہے،ان تمام روایات سے تبرک بآثار الصالحین کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔

مذکورہ خطبہ میں ایک کلمہ ایسا موجود ہے جس میں نہ صرف اس استحباب کی نفی کی گئی ہے،بلکہ اس کو ناکامی اور وبال و عذاب کا سبب بھی قرار دیا گیا ہے،وہ جملہ یہ ہے:"ثم نشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له من يشرك في ذاته و صفاته و عاداته و آياته أو يتبرك بغيره من نبي و ولي و نقي و تقي و نسيم و حسين و جميل و صغير و كبير فعليه الخسران و الوبال"(پھر ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں،جو اللہ تعالیٰ کی ذات،صفات،افعال یا نشانیوں میں کسی کو شریک ٹھہرائے،یا اللہ تعالیٰ کے ماسوا کسی نبی،ولی،پاکیزہ شخص،کسی متقی پرہیزگار،کسی شریف انسان،کسی حسین و جمیل،یا کسی بھی چھوٹے یا بڑے سے برکت حاصل کرے تو اس کے لیےناکامی اور عذاب ہے۔)

لا محالہ یہ جملہ اہل سنت والجماعت کے قول کےخلاف ہے،،اسی لیے اس خطبہ کو یہ عقیدہ رکھتے ہوئے پڑھنا جائز نہیں ہے۔

"صحيح البخاري"میں ہے:

"قال:أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو في قبة حمراء من أدم، ورأيت بلالا أخذ وضوء النبي صلى الله عليه وسلم، والناس يبتدرون الوضوء، فمن أصاب منه شيئا تمسح به، ومن لم يصب منه شيئا، أخذ ‌من ‌بلل ‌يد ‌صاحبه."

(ص:2200،ج:5،کتاب اللباس،باب القبة الحمراء من أدم،ط:دار ابن کثیر)

"عمدة القاري شرح صحيح البخاري"میں ہے:

"عن سهل رضي الله عنه:أن امرأة جاءت النبي صلى الله عليه وسلم ببردة منسوجة، فيها حاشيتها، أتدرون ما البردة؟ قالوا: الشملة، قال: نعم. قالت: نسجتها بيدي فجئت لأكسوكها، فأخذها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، فخرج إلينا وإنها إزاره، فحسنها فلان فقال: اكسينها، ما أحسنها، قال القوم: ما أحسنت، لبسها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها، ثم سألته، وعلمت أنه لا يرد، قال: إني والله، ما سألته لألبسها، إنما سألته لتكون كفني، قال سهل: فكانت كفنه."

ذكر ما يستفاد منه: فيه: حسن خلق النبي، صلى الله عليه وسلم، وسعة جوده وقبوله الهدية.... وفيه: ‌التبرك ‌بآثار ‌الصالحين..."

(ص:63،ج:8،کتاب الجنائز،باب من استعد الكفن في زمن النبي صلى الله عليه وسلم فلم ينكر عليه،ط:دار الفکر،بیروت)

"المستدرك على الصحيحين للحاكم"میں ہے:

"ثنا عبد الحميد بن جعفر، عن أبيه، أن خالد بن الوليد، فقد قلنسوة له يوم اليرموك فقال: اطلبوها فلم يجدوها، ثم طلبوها فوجدوها، وإذا هي قلنسوة خلقة، فقال خالد: اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم فحلق رأسه، وابتدر الناس جوانب شعره، فسبقتهم إلى ناصيته فجعلتها في هذه القلنسوة، فلم أشهد قتالا وهي معي ‌إلا ‌رزقت ‌النصر."

(ص:338،ج:3،‌‌ذكر مناقب خالد بن الوليد رضي الله عنه،ط:دار الکتب العلمیة)

"صحيح مسلم"میں ہے:

"قال:  أرسلتني أسماء إلى عبد الله بن عمر، فقالت: بلغني أنك تحرم أشياء ثلاثة: العلم في الثوب، وميثرة الأرجوان، وصوم رجب كله... فقالت: هذه جبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخرجت إلي جبة طيالسة كسروانية، لها لبنة ديباج، وفرجيها مكفوفين بالديباج، فقالت: هذه كانت عند عائشة حتى قبضت، فلما قبضت قبضتها وكان النبي صلى الله عليه وسلم يلبسها، فنحن ‌نغسلها ‌للمرضى يستشفى بها."

(ص:139،ج:6،‌‌كتاب اللباس والزينة،‌‌باب تحريم استعمال إناء الذهب والفضة،ط:دار المنہاج)

"شرح النووي على صحيح مسلم"میں  مذكورہ بالا حدیث کے ذیل میں ہے:

"وفي هذا الحديث دليل على استحباب ‌التبرك ‌بآثار ‌الصالحين وثيابهم."

(ص:44،ج:14،‌‌كتاب اللباس والزينة،‌‌باب تحريم استعمال إناء الذهب والفضة،ط:دارإحياء التراث العربي)

"بذل المجهود في حل سنن أبي داؤد"میں ہے:

"عن أنس بن مالك قال: "كانت لي ذؤابة فقالت لي أمي: لا أجزها، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمدها ويأخذ بها."

"كان رسول الله  صلى الله عليه وسلم  يمدها: أي: يبسطها بيده الكريمة ،ويأخذ بها: وهذا من تلطفه صلى الله عليه وسلم بخادمه، وحسن عشرته صلى الله عليه وسلم ، وفيه ‌التبرك ‌بآثار ‌الصالحين، والاحتراص على ادخار ما لمسوه بأيديهم، أو جلسوا عليه، أو كان من لباسهم."

(ص:221،ج:12،کتاب الترجل،باب في الصبي له ذؤابة وباب ما جاء في الرخصة،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

"فتح الباري بشرح صحيح البخاري"میں ہے:

"وقد تقدم حديث عتبان وسؤاله النبي صلى الله عليه وسلم أن يصلي في بيته ليتخذه مصلى وإجابة النبي صلى الله عليه وسلم إلى ذلك فهو حجة في التبرك بآثار الصالحين."

(ص:569،ج:1،باب المساجد التي على طرق المدينة،ط:دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411100716

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں