بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تعزیت کے موقع پر مروجہ بدعات کا حکم


سوال

1): ہمارے ہاں رواجی تعزیت کا کافی التزام ہوتا ہے ،ہر آنے والا آتے ہوئے بھی اور جاتے ہوئے بھی اجتماعی دعا کرنے كے ليے ہاتھ اٹھاتا ہے ، حالاں کہ دراصل ہر کوئی اس عمل سے تنگ ہے، مگر کسی کوئی اس کے چھوڑنے کی ہمت نہیں ہوتی کہ اس رواجی عمل کے خلاف قدم اٹھائے، لہذا اس کا شرعی حکم بتائیں؟

 2) تین  دن تک مسلسل دعاؤں کے لیے اہل میت کے پاس جانا ہوتا ہے ، کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

3): اگر کوئی فقط باہر باہر وارثین سے تعزیت کریں اور باقاعدہ حجرے میں جاکر اہتمام سے دعا نہ کریں ، تو اس صورت میں اسے قابلِ ملامت سمجھا جاتا هے ،اس حوالے علماء اور اہلِ دین کی کیا ذمہ داری بنتی ہیں ؟ 

جواب

1):کسی مسلمان کے انتقال پر میت کے متعلقین سے تعزیت کرنا ( یعنی ان کو تسلی دینا اور صبر کی تلقین کرنا ) سنت سے ثابت ہے، تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ میت کی تدفین سے پہلے یا اگر موقع نہ ملے تو تدفین کے بعد میت کے گھر والوں کے یہاں جا کر ان کو تسلی دے، ان کی دل جوئی کرے، صبر کی تلقین کرے،  ان کے اور میت کے حق میں دعائیہ جملے کہے، تعزیت کے الفاظ اور مضمون متعین نہیں ہے،صبر اور تسلی کے لیے جو الفاظ زیادہ موزوں ہوں وہ جملے کہے،تعزیت کی بہترین دعا یہ ہے: 

’’إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ وَلَهٗ مَا أَعْطٰى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهٗ بِأَجَلٍ مُّسَمًّى‘‘ یا ’’أَعْظَمَ اللّٰهُ أَجْرَكَ وَ أَحْسَنَ عَزَائَکَ وَ غَفَرَ لِمَیِّتِكَ.‘‘

اس سے زائد بھی ایسا مضمون بیان کیا جاسکتا ہے جس سے غم ہلکا ہوسکے اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔

باقی تعزیت کے دوران ہر آنے والے کے ساتھ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا سنت سے ثابت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے لیے کوئی دعا مخصوص ہے، اس لیے اس کو لازم سمجھ کر کرنا درست نہیں ہے، البتہ لازم سمجھے بغیر مغفرت کی کوئی بھی دعا کی جائے یا لازم سمجھے بغيرہاتھ اٹھا کر دعا کرلی  تو کوئی حرج نہیں ہے، لازم سمجھنا  اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا  بدعت کی  علامت ہے، اس صورت میں ترک کرنا لازم ہے۔

2):تعزیت کا وقت میت کے انتقال سے لے کر تین دن تک ہوتا ہے،اسدوران کسی بھی وقت میت کے اہلِ  خانہ اور اعزّہ و اقارب سے تعزیت کی جاسکتی ہے،نیزایک مرتبہ تعزیت کرنے سے تعزیت کی سنت اور فضیلت حاصل ہوجائے گی، بار بار تعزیت کرنا ثابت بھی نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی نہیں ہے،  تاہم  تعزیت کے لیے لوگ بیٹھے ہوں تو اس مجلس میں ایک سے زائد مرتبہ  شرکت کی گنجائش ہے، لیکن مقصود غم کو تازہ کرنا یا دوبارہ تعزیت کو موجبِ ثواب سمجھنا نہ ہو،  بار بار تعزیت کرنا غم کو تازہ کرتا ہے،  جو دینِ اسلام کا مزاج نہیں ہے۔

3):تینوں دن میں   کسی بھی مکان میں  میت کے اہلِ  خانہ اور اعزّہ و اقارب سے تعزیت کی جاسکتی ہے،باقاعدگی سے حجرے میں جاکر دعا کا اہتمام کرنا لازم نہیں ہے،اور نہ کرنے والا کو ملامت کرنا شرعاً درست نہیں،باقی علماء کي ذمہ داری یہ ہے کہ وعظ اور نصیحت کے موقع پر ان مسائل کو بیان کریں۔

بخاری شريف ميں  ہے:

"عن ‌أبي عثمان قال: حدثني ‌أسامة بن زيد رضي الله عنهما قال: «أرسلت ابنة النبي صلى الله عليه وسلم إليه: إن ابنا لي قبض فأتنا، فأرسل يقرئ السلام، ويقول: إن لله ما أخذ وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر ولتحتسب."

حضرت اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک صاحبزادی نے آپ کو کہلا بھیجا کہ میرا ایک لڑکا وفات پا گیا ہے،اس لیے آپ تشریف لائیں۔ آپ نے اس کا جواب کہلا بھیجا کہ سلام کہتے ہوئے:"إن لله ما أخذ، وله ما أعطى، وكل عنده بأجل مسمى، فلتصبر، ولتحتسب"۔

(كتاب الجنائز، ‌‌باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: «يعذب الميت ببعض بكاء أهله عليه» إذا كان النوح من سنته "، ج:2، ص:79، ط: السلطانية، بالمطبعة الكبرى الأميرية)

فتح الباری میں ہے:

"قال ابن المنير فيه أن المندوبات قد تقلب مكروهات إذا رفعت عن رتبتها."

(فتح الباري، كتاب الآذان، باب الانفتال والانصراف عن اليمين والشمال، ج:2، ص:338، ط:دار المعرفة)

"فيض الباري شرح الصحيح للبخاري" میں ہے:

 "فتلك هي الشاكلة في جميع المستحبات، فإنها تثبت طورا فطورا، ثم الأمة تواظب عليها. نعم نحكم بكونها بدعة إذا أفضى الأمر إلى النكير على من تركها."

(فيض الباري شرح الصحيح للبخاري، كتاب الدعوات، باب الدعاء بعد الصلوة، ج:6، ص:225، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

علامہ شاطبی رحمہ اللہ’’الاعتصام‘‘میں بدعات کی تعیین کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"منها: وضع الحدود كالناذر للصيام قائما لا يقعد ...ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة ... ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة."

( الباب الأول تعريف البدع وبيان معناها، ج:1، ص:53، ط:دار ابن عفان)

حافظ ابن دقیق العید رحمہ اللہ’’إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام‘‘ میں لکھتے ہیں:

"إن ‌هذه ‌الخصوصيات بالوقت أو بالحال والهيئة، والفعل المخصوص: يحتاج إلى دليل خاص يقتضي استحبابه بخصوصه. وهذا أقرب."

وفیہ ایضاً:

"لأن الحكم باستحبابه على تلك الهيئة الخاصة: يحتاج دليلا شرعيا عليه ولا بد."

وفیہ ایضاً:

" وقريب من ذلك: أن تكون العبادة من جهة الشرع مرتبة على وجه مخصوص. فيريد بعض الناس: أن يحدث فيها أمرا آخر لم يرد به الشرع، زاعما أنه يدرجه تحت عموم. فهذا لا يستقيم؛ لأن الغالب على العبادات التعبد، ومأخذها التوقيف."

(کتاب الصلاۃ، باب فضل الجماعة ووجوبها، ج:1، ص:200، ط: مطبعة السنة المحمدية)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:

"‌التعزية لصاحب المصيبة حسن، كذا في الظهيرية ...ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها وهي بعد الدفن أولى منها قبله وهذا إذا لم ير منهم جزع شديد فإن رئي ذلك قدمت ‌التعزية ويستحب أن يعم بالتعزية جميع أقارب الميت الكبار والصغار والرجال والنساء إلا أن يكون امرأة شابة فلا يعزيها إلا محارمها، كذا في السراج الوهاج. ويستحب أن يقال لصاحب ‌التعزية: غفر الله تعالى لميتك وتجاوز عنه وتغمده برحمته ورزقك الصبر على مصيبته وآجرك على موته، كذا في المضمرات ناقلا عن الحجة. وأحسن ذلك تعزية رسول الله - صلى الله عليه وسلم - "إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى"…ولابأس لأھل المصیبة أن یجلسوا فی البیت أو في المسجد ثلاثة أیام والناس یأتونھم ویعزونھم."

(كتاب الصلاة ،الباب الحادي والعشرون في الجنائز  : ج:1، ص:167، ط:رشيديه)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"(سوال ۳۱۰۱) فاتحہ خوانی اور تعزیت کتنے دن تک کن لفظوں سے مسنون ہے ؟ ماتم والوں کے گھر پر یا مسجد میں ۔

(الجواب ) تعزیت تین دن تک ہے اس کے بعد مکروہ ہے مگر جو شخص اس وقت نہ ہو وہ بعد میں کرسکتا ہے، تعزیت میں تسلی کے کلمات ہوں یعنی اس قسم کے کہ صبر کرو اﷲ تم کو اس صبر کا اجردے گا وغیرہ ،اور تعزیت کے لیے مسجد میں بیٹھنا مکروہ ہے بلکہ گھر پر ہو ۔"

(فتاوی دارلعلوم دیوبند ،کتاب الجنائز ج:5ص:283 ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں